نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

ٹیکس نادہندگان کیخلاف ایکشن کی تیاری مکمل

 ٹیکس نادہندگان کیخلاف ایکشن کی تیاری مکمل




لاہور(نوائے درویش رپورٹ) ایف بی آر نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف ایکشن کی تیاری مکمل کر لی۔ تاجروں کا 10 سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔ عدالتوں سے لیے گئے سٹے بھی خارج ہو جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق چند روز تک ٹیکس نادہندہ تاجروں اور صنعت کاروں کو حتمی نوٹس مل جائیں گے، جن تاجروں اور صنعت کاروں کو نوٹسز بھیجے جائیں گے ان کا رہن سہن، شاہانہ اخراجات ان کے ٹیکس ڈیٹا سے مطابقت نہیں رکھتا، ان تاجروں کا ٹیکس چند ہزار جبکہ سالانہ آمدن کروڑوں میں ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر تاجروں اور صنعتکاروں نے متعدد پلاٹس لے رکھے ہیں اور ان کے بیرون ملک بھی بزنس ہیں، کئی بار ان تاجروں اور صنعتکاروں کو پورا ٹیکس دینے کا موقع فراہم کیا گیا۔

اس حوالے سے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ لاہور کی اکبری منڈی، شاہ عالم مارکیٹ، اعظم کلاتھ، انارکلی اور لبرٹی کے تاجروں کی فہرست تیار کر لی گئی ہے جبکہ مال روڈ، گلبرگ، فیروز پور روڈ، ماڈل ٹاؤن اور دیگر علاقوں کے تاجروں کی فہرستیں بھی تیار ہیں۔

ذرائع کے مطابق تاجروں کا 10 سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے، دوسرے مرحلے میں پنجاب بھر کی مارکیٹوں اور بازاروں کے تاجروں کو شامل کیا جائے، عدالتوں سے بھی رجوع کیا گیا، جس کے بعد اسٹے خارج ہو جائیں گے۔

ایف بی آر حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانا ہے، نہ کسی سے زیادتی ہو گی نہ زائد ٹیکس لیں گے، تمام قانونی تقاضے پورے کر لیے ہیں، ٹیکس لیے بغیر اب گزارا نہیں، حکومت سنجیدہ ہے۔

Share:

سفیدپوشوں کامذاق

 سفیدپوشوں کامذاق 



بدلتی ہوئی معاشرت یہ ہے کہ معاشرتی قدریں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔بدلتی ہوئی معیشت یہ ہے کہ کم ترین معاشرتی اسٹیٹس والا کماؤ پوت ہے اور وہ اس سے مانگ رہاہے جس نے سفید کپڑے توپہنے ہوئے ہیں مگرآن گراؤنڈاس کی آمدن مانگنے والے سے کم ہے۔  تہذیب اورتمدن کی ہمارے سامنے نسل درنسل کی اقدارمیں ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں۔بڑے کااحترام،والدین کاتقدس ،سینئرز کے حقوق اپنے طورپردینے کی سپرٹ بدل رہی ہے۔ بڑاکسی بات سے روکے توناگواریت اور سردمہری کاردعمل اپنا حق سمجھا جاتاہے۔

والدین کونسلوں کی تربیت کے امین ہوتے ہیں روک ٹوک کریں تو بے زاری کااظہارعام سامظہربنتاجارہاہے۔ اپنی رعایت سے دستبردارہوکر کسی بزرگ کے لیے گنجائش پیداکرنا ہماری اخلاقی ترجیحات کی فہرست میں نیچے جارہاہے۔دوران سفر،اجتماعات میں اورخوشی غمی کے موقع پر آپ ہاتھ پھیلانے والوںبھکاریوں کوکم ترنہیں سمجھاجاسکتا۔ وہ بظاہر ہاتھ پھیلارہے ہوتے ہیں مگر ان کاپھیلایاہواہاتھ جب شام کو واپس جیب میں جاتاہے تو کسی کی دیہاڑی5ہزارروپے سے کم نہیں ہوتی۔ وہ سارادن ان سفیدپوشوں سے بھی مانگ رہے ہوتے ہیں  جوپورامہینہ محنت مشقت کرکے بھی بمشکل ہزار،ڈیڑھ ہزار،دوہزارروپے کی دیہاڑی کماتے ہیں۔ بدلتی ہوئی معاشرت یہ ہے مانگنے والا دن کا5سے10ہزاراورجس سے مانگا جارہاہوتاہے وہ  دن کے ہزاردوہزاریابہت چھلانگ لگالے تو تین ہزارروپے روزانہ کی اجرت پر مشقت کرتاہے۔پھرصاف ستھرے کپڑوں میں اپنے ماضی قریب کی خوشحالی کاتاثردے کر مانگنے کارجحان بھی نظرآرہاہے۔ 

 بدلی ہوئی معاشرت اور معیشت یہ ہے کہ سفیدپوش  اپنے رکھ رکھاؤمیں آکر اپنی کم مائیگی کارونانہ رونے پرمجبورہوتاہے، اس کی جیب خالی ہوتی ہے مگر مانگنے والے کی جیب بھی پیسوں سے بھری ہوتی اور وہ اس کے سامنے آکر اللہ کے واسطے ڈال رہاہوتاہے کہ اس کاخیال کرے۔ بات اسی پرہی ختم نہیں ہوتی ہمارے مذہب میں مانگنے کواچھافعل نہیں سمجھاجاتا،معاشرے میں بھی بظاہرایساہی چلن ہے مگر جوں جوں وقت آگے بڑھ رہاہے مانگنا اور ہاتھ پھیلانا عیب نہیں سمجھاجارہا بلکہ ہمارے اپنے اندرہی لوگ موجود ہوتے ہیں جویہ جواز پیش کررہے ہوتے ہیں کہ مہنگائی اورغربت اتنی بڑھ رہی ہے کہ ہربندہ مانگ کرگزارہ کرنے پرمجبورہے۔ 

سفیدپوشی کے ساتھ اپنی کم مائیگی اور وسائل کی قلت کارونارونے والوں میں  پیش پیش طبقے میں تنخواہ دارطبقہ بھی شامل ہے۔ جوروزمرہ سفرمیں اورسرراہ چلتے چلتےایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں  اور باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے بات کردیتے ہیں کہ  یہ سفیدپوشی کابھرم رکھنابھی مشکل ہورہاہے۔ پھرساتھ ہی کوئی مانگنے والا اورمانگنے والی سامنے آجائے تویہ تبصرہ متفقہ ہوتاہے کہ یارہم سے اچھے سے تولوگ ہیں جو کم از کم ہاتھ توپھیلاسکتے ہیں۔ ہم توہاتھ بھی نہیں پھیلاسکتے۔

 ہمارے ہم عصر اور کامیاب صحافیوں میں سے ایک ایاز خان کے وہ یادگارالفاظ اب بھی ناقابل فراموش ہیں جوانہوں نے کئی سال پہلے کہے۔ فرمانے لگے لگی بندھی آمدن10لاکھ روپے بھی ہوتوکم ہوتی ہے۔کیونکہ تنخواہ بڑھنے کے ساتھ آپ کی ضروریات کی فہرست بھی طویل ہوتی جاتی ہے ۔ سب کچھ لگ لگاکے مہینے کے آخر تک آپ کبھی ایک توکبھی دوسرے ہاتھ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کئی سال بعد آج بھی ان کے یہ الفاظ یاد ہیں۔ ہاتھ پھیلانے کاحوصلہ کرلینے والےفی زمانہ کامیاب  نظرآتے ہیں ۔ وہ مانگ لیتے اور انہیں مل بھی جاتاہے۔ حافظ طارق نے کہا کہ بھیک مانگنے کے بہت سے جواز پیداکرلیے گئے ہیں۔ مانگنے کے اسٹائل بدل لیے گئے ہیں جن کی پذیرائی ہم خود بھی کرتے ہیں۔ 

مثال کے طورپرآپ اورنج ٹرین  یا کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکررہے ہوتے ہیں تو چھوٹی موٹی چیز بیچنے کانام پربھی مانگنے والوں سے سامنا ہوجاتاہے۔ کوئی بچہ پنسل بیچ رہاہے،کوئی بچی ٹافیاں بیچ رہی ہوتی ہے اورہم جیسے سفید پوش اپنی آمدنی اورکم مائیگی کاعلم ہونے کے باوجود ان سے پنسل یا ٹافیاں خریدنے کی بجائے انہیں ویسے ہی 50یا100روپے یہ خود ساختہ جواز پیداکرکے دے رہے ہوتے ہیں  کہ مانگ تونہیں رہا یانہیں رہی،محنت ہی کررہے ہیں جس کی قدرکرنی چاہئے اوردیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سامنے آخری سے پہلے ڈبے تک جانے تک ہم جیسے درجنوں افراد انہیں50اور100کے بے شمارنوٹ دے چکے ہوتے ہیں۔ گویاوہ بچے ایک ہی چکرمیں  ایک دن میں دینے والوں کی یومیہ آمدن سے کہیں زیادہ پیسے کمالیتے ہیں۔

 یہاں فاضل دوست،خوبصورت شخصیت کے مالک اورعامل صحافی حاجی آصف شہزاد کاتذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے عالم شباب  میں عمرہ کیا اوروالدین کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے عمرہ اورحج کے لیے سعودیہ جانے والے بہت سے پاکستانی وہاں جاکرہاتھ پھیلاناشروع کردیتے ہیں اور مانگنے کواپناپیشہ بنالیتے ہیں یہ رجحان دنیا کے دیگرمسلمان ممالک کے مقابلے میں پاکستانیوں میں بہت زیادہ ہے۔ یعنی بغیر محنت کمائی کاذریعہ جوبھی ہواسے جائزسمجھنا ہماراقومی مزاج  کاحصہ ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90 فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اِن ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے۔تاہم حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پاکستانی حکومت سے باضابطہ شکایت کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کو اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں ۔پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق حالیہ دنوں میں ملتان اور سیالکوٹ سے چند گروہ گرفتار ہوئے ہیں جو لوگوں کو عمرے کے بہانے سعودی عرب لے کر جاتے  اوران سے بھیک منگواتے ہیں۔بات بھیک مانگنے یانہ مانگنے کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ بھیک کومعاشرتی برائی اورناسورسمجھنے کارویہ کمزورپڑرہاہے۔ جس کی بڑی وجہ ہماری قوم کی صدقہ اورخیرات دینے کی خود ساختہ سوچ بھی ہے اورمانگنے والوں کی آسان ذریعہ آمدن اپنانے کاآپشن بھی۔ بھکاریوں کی بہت بڑی تعداد ان افراد پربھی مشتمل ہے جومختلف اشیااٹھائے محنت مشقت کاڈھونگ رچاکرخریدارکے سامنے کچھ اس انداز میں اپنی داستان دکھ بیان کرتے ہیں کہ وہ خواہ مخواہ ان کاہمدرد بن جاتاہے۔ہاتھ پھیلانا صرف ایک بارمشکل پھرعادت بن جاتی ہے ۔ اس کے بعدبھیک مانگنے والے ہمارے معاشرے میں متوسط اور سفیدپوش طبقے کا مذاق اڑاتے نظرآتے ہیں۔


Share:

"سٹینڈ اپ گرل"، فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ، کیا زارا کا خواب پوراہوگیا؟

 "سٹینڈ اپ گرل"، فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ، کیا زارا کا خواب پوراہوگیا؟



ڈرامہ سٹینڈ اپ گرل فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ہے ۔نجی ٹی وی پرجاری اس ڈرامے کو بہت زیادہ پسند کیاگیا،اس کے اختتام نے  شائقین کی بھرپور توجہ حاصل کی ۔ خاص طور پر نانا نواسی کے شو کو توبہت زیادہ سراگیا، اس کے علاوہ زاراکے شو میں مخدوم دانیا ل کی انٹری باکمال رہی۔

اس کی پسندیدگی کی مختلف وجوہات ہیں ۔ اس ڈرامے میں پہلی بار زارا نور اور دانیال ظفر  ایک ساتھ  کام کررہے ہیں۔’سٹینڈ اپ گرل‘ کی کاسٹ میں اداکارہ زارا نورعباس کے ساتھ سہیل احمد، دانیال ظفر، صبا فیصل، عدنان شاہ ٹیپو، فرح طفیل، مائرہ خان، تمکنت منصور اور سعد اظہر شامل ہیں۔ڈرامے کی کہانی لڑکی کی زندگی کے دلچسپ سفر پر مبنی ہے جس میں وہ معاشرے کے عام دستور کو چھوڑکر سٹینڈ اپ کامیڈین بننے کیلئے معاشرے کی توقعات سے بغاوت کرتی ہے جو اس کے خواب کو چکنا چور کرنے کے درپے ہے۔وہ ان مشکلا ت کا مقابلہ کرنے میں کوشاں ہے ، اسی دوران کہانی میں متوازی نوجوان کی کہانی سامنے آتی ہے جو لوئر کلاس کامیڈین فیملی سے تعلق رکھتا ہے اوراسے بھی سٹینڈ اپ کامیڈین بننے کا بے حد شوق ہے مگر اسے اپنے سگے رشتہ داروں کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہے۔خوابوں کی تعبیر پانے کی جدوجہد کے ذریعے ڈرامے میں عزم کے پختہ ہونے اور حقیقی خلوص کیساتھ چیلنجز کا مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے

۔سیریل کو تین  رائٹرز عدیل افضل، اویس احمد اور بی گل نے بڑی خوبصورتی سے تحریر کیا ہے جبکہ کاشف نثار نے اس دلچسپ ڈرامے کی ہدایات دی ہیں۔ سٹینڈ اپ کامیڈین ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی کے حوالے سے بات کریں تو زارا  اسلام آباد میں پلی بڑھی ہے اور یونیورسٹی کے سٹیج پر سٹینڈ اپ کامیڈی کرتی رہی ہے۔ اس کامیڈی  کی وجہ سے  یونیورسٹی سے نکالا بھی جاتا ہے اور حالات ایسے بنتے ہیں کہ اس کی ماں کینسر سے لڑتی لڑتی اس دنیائے فانی کو چھوڑ جاتی ہے اور زارا کو اپنے باپ امیر علی خان کے سپرد کر دیتی ہے۔زارا کو اپنی ماں سے ہسپتال میں ہی علم ہوتا ہے کہ جو لوگ ہسپتال میں ہیں، وہ اس کے نانا اور ماموں ہیں۔اس کی ماں عمر بھر اس سے اپنی اصلیت چھپا کے رکھتی ہے کہ وہ ایک سٹینڈ اپ کامیڈین امیر علی خان کی بیٹی ہے، جس کی اپنے دور میں بطور فنکار اپنی پہچان تھی۔اس کے ایک ماموں بھی سٹیج اداکار ہیں، لیکن گزر بسر کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔اس کی ماں نے جو مثالی خواب بنے ہوئے تھے، وہ بیٹی کو اتنے سنائے کہ اس کے لیے اصل زندگی کو قبول کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ 

 اس کی ماں نے تو اسے بتایا تھا کہ اس کے نانا کوئی بہت خاندانی و دھیمے مزاج کے انسان ہیں۔ اس کے ماموں سول سروس میں ہیں لیکن جب وہ اسلام آباد سے اچانک اور حادثاتی طور پہ اندرون لاہور آتی ہے تو الجھ جاتی ہے۔وہ کسی طور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتی ہے۔ نانا اس کے ساتھ جاتے ہیں تو پرنسپل پہچان لیتا ہے کہ یہ تو اپنے وقت کے بہت بڑے سٹیج کامیڈین رہے ہیں۔زارا کو حیرت تو ہوتی ہے کیونکہ وہ تو اپنے نانا اور ماموں کو ان کے ظاہری حال اور رہن سہن سے پہچاننے کی کوشش میں ہے، جو سب اپنے حال میں مست زندگی گزار رہے ہیں، جن سب کی زندگی میں زارا کے آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔زارا کی ماں نے برسوں پہلے اس شناخت سے منہ موڑ کر کسی سے شادی کر لی تھی، اس کے بعد اس کا رابطہ کبھی بھی خاندان سے نہیں رہا۔اس کی خالہ طلاق کے بعد اپنے ابا اور بھائیوں کے پاس ہی رہ رہی ہے۔ امیر علی خان کے بہت شاگرد ہیں۔ ایک ان کے ساتھ بھی رہتا ہے۔ ایک شاعر حضرت پڑوس میں مقیم ہیں لیکن اندرون لاہور کے روایتی مل جل کے رہنے والی تہذیب کے مطابق امیر علی خان کے گھر میں ہی پائے جاتے ہیں۔سٹنیڈ اپ کامیڈین بننا یا ہونا زارا کو ورثے میں ملا ہے۔ یہ اس کی چوائس یا مجبوری بعد میں بنتا ہے۔زارا کی ملاقات کبیر سے ہوتی ہے  پہلے ان کی ملاقات اسلام آباد پھر لاہور میں ایک کیفے میں ہوتی ہے۔یہ کیفےکبیر کے دوست کا ہی ہے، جہاں سے زارا اور کبیر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں  کبیر ایک تخلیق کار ہے، شاعر اور موسیقار ہے، لیکن ابھی وہ اپنے تخلیقی بندش کے دور سے گزر رہا ہے، جو زرا کے آنے سے اچانک ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں بحران سے گزر رہے ہیں، یوں دوست بن جاتے ہیں۔کبیر پنجاب کے کسی زمیندار گھرانے کا سپوت ہے،  اس کردار میں اچانک ٹوئسٹ آتا ہے اور عین بہترین پرفارمنس کے وہ اچانک غائب ہوجاتا ہے اس کی فکر زارا اور سب کو ہوتی ہے۔ 

اس ڈرامے  کے اختتام  پرزارا اور کبیر کی ملاقات ہوتی ہے، کبیر بتاتا ہے کہ وہ کیوں غائب ہوگیا تھا اور اس کا خواب کیا تھا، وہ جس چیز سے بھاگتا رہا اس کے والد کی وفات کے بعد اس کو وہی کام کرنا پڑا۔

اس ڈرامے میں اندروز لاہور کی عکاسی بہترین طریقے سے کی گئی ہے اس کے ساتھ فنکار برادری کو درپیش مسائل اور معاشرے میں مقام اور جدوجہد کی عکاسی بہترین ہوئی ہے ۔ اس ڈرامےمیں سب سے  جاندار اداکاری میں سہیل احمد نظر آتے ہیں جو دھیمے لہجے کی وجہ سے شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھتے ہیں اور زارا کو کہے گئے ان کے جملے بھی پسند کیے گئے ہیں ۔ڈرامہ سیریل ’سٹینڈ اپ گرل‘ کا اچھوتی بات ہی پنجابی مزاح اور اس سے جڑے لوگوں کی کہانی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ شاید یہ مزاح صرف پنجابیوں کو ہی سمجھ آ سکے گا۔ لیکن زارا نور عباس ان تحفظات کو رد کرتی ہیں۔ان کے خیال میں اس ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ اِس کہانی کا نیا پن ہے۔ 


Share:

خواتین کی تعلیم

 خواتین کی تعلیم 



ایک قوم کی تعمیر و ترقی میں معیاری تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن اگر یہی تعلیم اپنی تہذیب و تمدن اور روایات سے ہٹ کر حاصل کی جائے تو اس سے فائدہ حاصل کرنا تو درکنار الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ زندگی کے ہرایک شعبے میں شریعت کے احکام موجود ہیں۔ لہٰذا زندگی کے کسی شعبے کو اسلامی تعلیمات سے خارج سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اسی طرح دینی تعلیم سے قطع نظر صرف عصری تعلیم کے حصول کو ضروری سھناتع نامناسب ہے۔ کیونکہ دنیاوی تعلیم اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس سے دینی تعلیم بھی نہ ملائی جائے۔

 پاکستان میں خواتین کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں سکول کی نسبت خواتین کی شرح انتہائی کم پائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ہراسمنٹ کیسز کی وجہ سے اکثر والدین کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی عفت اور آبرو کی فکر ہوتی ہے۔مخلوط تعلیمی نظام بھی تعلیم نسواں کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مذکورہ نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروںمیں مغربی کلچر تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کا مستقبل خطرے میں ہے۔

تعلیم نسواں ایک مختلف چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے۔اسی طرح معاشی مسائل کی وجہ سے بھی تعلیم نسواں تعطل کاشکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک غریب سارا دن محنت، مزدوری کرنے کے باوجود اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا تووہ اپنی بیٹی کوتعلیم دلانے کے لیے بڑی بڑی فیسیں کیسے برداشت کرسکتاہے۔ کئی بار بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنے خوابوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ دونوں کی فیس برداشت کرسکے۔ لہٰذا ایک بہن ، بھائی کے مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کی بلی چڑھادیتی ہے۔ بعض والدین یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی تو ویسے بھی پرائے گھر کی مہمان ہے، ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے، اس لیے وہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی…!؟ 

ان تمام مسائل کو حل کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، غریب لوگوں کو مفت تعلیم دینا، بڑھتے ہوئے ہراسمینٹ کے واقعات کا سدِ باب کرنااور مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کرنے سے ہی تعلیم نسواں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں ایسے نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو خواتین کی تعلیم کو عام کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ ہے۔۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی حدود میں رہ کر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ تعلیمی نظام مہیا کرے۔ کیونکہ اگر مقصد تعلیمِ نسواں ہے تو یہ تعلیم مخلوط نظام کے علاوہ بھی دی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف اسلامی اصول کی خلاف ورزی سے بچا جاسکتا ہے بلکہ بآسانی تعلیم نسواں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ملک میں رائج مخلوط تعلیمی نظام اور اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی وجہ سے خواتین کی ایک کثیر تعداد تعلیم جیسی عظیم دولت سے محروم ہے۔

Share:

قومی زبان کا نفاذ

 قومی زبان کا نفاذ


 

دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبے میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا مگر اس کے برعکس ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے انگریزوں اور انگریزی زبان کے سارے چلنا شروع کیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ انگریزی سیکھے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔

 کسی دوسری زبان کو سیکھنا جرم تو نہیں ہے مگر اپنی زبان کو ترک کر کے دوسری زبان کو بہت اہمیت دینا جرم ہو سکتا ہے  یا آپ یوں کہہ لیجیے کہ میری نظر میں یہ ایک جرم ہے دنیا کے کئی ممالک میں اپنی زبان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے وہ اپنی زبان کو باقاعدہ فروغ دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو باقاعدہ طریقے سے سکھاتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نظام ہی نہیں اس کے علاوہ دوسری زبانوں کو یعنی انگریزی زبان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔

کئی سکولوں اور کالجوں میں اردو زبان کی بجائے انگریزی زبان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہاں پر بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے یہاں تک کہ اسلامیات  اور مطالعہ پاکستان بھی کئی یونیورسٹیوں کالجوں  اور سکولوں میں اردو زبان کے بجائے انگریزی زبان میں پڑھی جاتی ہیں بلکہ ہمارے بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہماری قومی زبان یعنی اردو زبان کی کوئی حیثیت یا معیار ہی نہیں انگریزی زبان کا معیار زیادہ ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بچوں میں انگریزی زبان کے بولنے سے فوقیت زیادہ ہو جاتی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی زبان بولیں گے تو ہم پڑھیں لکھیں لگیں گے اور اس وجہ سے وہ اردو زبان یعنی اپنی قومی زبان بولنا چھوڑ دیتے ہیں ہمیں اپنی قومی زبان یعنی اردو کا معیار برہانے کے لیے اپنے سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو یہ تعلیم بچوں کو دینا ہوگی کہ ہماری قومی زبان ہی ہماری پہچان ہے۔

 اگر ہم ہی اس کو فروغ یا اہمیت نہیں دیں گے تو دوسرے بھی نہیں دیں گے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی قومی زبان یعنی اردو کو اہمیت دیں تاکہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی ہماری قومی زبان کو اہمیت دیں ترکی میں لوگ اپنی زبان کو بہت اہمیت اور فروغ دیتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اپنی زبان یعنی ترکش کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی اور وہ اسی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور کوریا میں کورین زبان اور اسی طرح ہر ممالک میں اپنی زبان کو بہت اہمیت اور فروغ حاصل ہےہمیں بھی اپنی زبان کو بہت محبت اور پیار سے بولنا چاہیے اور ایسے بولنی چاہیے کہ دوسرااس کو سن کر متاثر ہو اور اس کو سیکھنے اور بولنے کی کوشش کریں آخر میں بھی یہ اپنے پڑھنے والوں کو کہوں گا اپنی زبان کو بولیں اور اس کو اپنی پہچان بنائیں۔

Share:

Muhammad Faisal Anjum: Driving Growth and Excellence in Pharmaceutical


Title: Muhammad Faisal Anjum: Driving Growth and Excellence in Pharmaceutical Sales and Marketing

 


In the dynamic landscape of the pharmaceutical industry, individuals who possess a blend of strategic vision, leadership prowess, and unwavering dedication stand out as pillars of success. One such luminary is Muhammad Faisal Anjum, whose illustrious career journey exemplifies a relentless pursuit of excellence in sales and marketing within the pharmaceutical sector.

With a track record adorned with remarkable achievements, Muhammad Faisal Anjum has emerged as a revered figure in the realm of pharmaceutical sales and marketing. Armed with a wealth of experience and a robust skill set, Anjum has played pivotal roles in leading key revenue-driving projects and business units, leaving an indelible mark on the industry.

His proactive approach and adeptness in navigating complex market dynamics catapulted the business to new heights,

His leadership prowess was evident as he spearheaded a multifaceted team, fostering a culture of collaboration and excellence.

At the heart of Anjum's success lies his innate ability to leverage data-driven insights to formulate and execute impactful strategies. His adept utilization of IQVIA data facilitated the identification of growth opportunities and the development of targeted interventions, propelling business growth and enhancing market penetration.

Anjum's commitment to excellence extends beyond the realms of sales and marketing.

A testament to his unwavering dedication and exceptional performance, Anjum's career trajectory has been marked by a string of accolades and promotions. His exemplary leadership, coupled with a strong focus on results, has earned him the admiration and respect of peers and industry stalwarts alike.

In addition to his professional achievements, Anjum's academic credentials underscore his commitment to continuous learning and personal development. Armed with an Executive MBA and postgraduate degrees in Business Administration and International Marketing from esteemed institutions in Pakistan and the UK, Anjum embodies a rare blend of theoretical acumen and practical expertise.

As the pharmaceutical industry continues to evolve amidst an ever-changing landscape, Muhammad Faisal Anjum stands as a beacon of inspiration, driving growth, and excellence with unwavering resolve and unparalleled dedication.

Continuing his narrative as a luminary in the pharmaceutical industry, Muhammad Faisal Anjum's national recognition extends far beyond his corporate achievements.

Beyond his professional endeavors, Anjum's influence transcends into the realm of social responsibility.

In essence, Muhammad Faisal Anjum epitomizes the essence of a national icon, seamlessly blending professional excellence with a profound sense of social consciousness. Through his tireless dedication to advancing the pharmaceutical industry and serving the broader community,

In the continuum of his remarkable career, Muhammad Faisal Anjum emerges not just as a corporate leader but as a beacon of inspiration for the young generation.

As a trailblazer in the field of pharmaceutical sales and marketing, Anjum's innovative spirit and forward-thinking approach captivate the imagination of the youth.


Writer/Blogger Amna Arif wrote its opinion 

Share:

Recent Posts