نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

خواتین کی تعلیم

 خواتین کی تعلیم 



ایک قوم کی تعمیر و ترقی میں معیاری تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن اگر یہی تعلیم اپنی تہذیب و تمدن اور روایات سے ہٹ کر حاصل کی جائے تو اس سے فائدہ حاصل کرنا تو درکنار الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ زندگی کے ہرایک شعبے میں شریعت کے احکام موجود ہیں۔ لہٰذا زندگی کے کسی شعبے کو اسلامی تعلیمات سے خارج سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اسی طرح دینی تعلیم سے قطع نظر صرف عصری تعلیم کے حصول کو ضروری سھناتع نامناسب ہے۔ کیونکہ دنیاوی تعلیم اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس سے دینی تعلیم بھی نہ ملائی جائے۔

 پاکستان میں خواتین کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں سکول کی نسبت خواتین کی شرح انتہائی کم پائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ہراسمنٹ کیسز کی وجہ سے اکثر والدین کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی عفت اور آبرو کی فکر ہوتی ہے۔مخلوط تعلیمی نظام بھی تعلیم نسواں کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مذکورہ نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروںمیں مغربی کلچر تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کا مستقبل خطرے میں ہے۔

تعلیم نسواں ایک مختلف چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے۔اسی طرح معاشی مسائل کی وجہ سے بھی تعلیم نسواں تعطل کاشکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک غریب سارا دن محنت، مزدوری کرنے کے باوجود اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا تووہ اپنی بیٹی کوتعلیم دلانے کے لیے بڑی بڑی فیسیں کیسے برداشت کرسکتاہے۔ کئی بار بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنے خوابوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ دونوں کی فیس برداشت کرسکے۔ لہٰذا ایک بہن ، بھائی کے مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کی بلی چڑھادیتی ہے۔ بعض والدین یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی تو ویسے بھی پرائے گھر کی مہمان ہے، ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے، اس لیے وہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی…!؟ 

ان تمام مسائل کو حل کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، غریب لوگوں کو مفت تعلیم دینا، بڑھتے ہوئے ہراسمینٹ کے واقعات کا سدِ باب کرنااور مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کرنے سے ہی تعلیم نسواں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں ایسے نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو خواتین کی تعلیم کو عام کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ ہے۔۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی حدود میں رہ کر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ تعلیمی نظام مہیا کرے۔ کیونکہ اگر مقصد تعلیمِ نسواں ہے تو یہ تعلیم مخلوط نظام کے علاوہ بھی دی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف اسلامی اصول کی خلاف ورزی سے بچا جاسکتا ہے بلکہ بآسانی تعلیم نسواں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ملک میں رائج مخلوط تعلیمی نظام اور اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی وجہ سے خواتین کی ایک کثیر تعداد تعلیم جیسی عظیم دولت سے محروم ہے۔





نوٹ:یہ بلاگر رابعہ زاہدکی ذاتی رائے ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔




Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts