نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

"سٹینڈ اپ گرل"، فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ، کیا زارا کا خواب پوراہوگیا؟

 "سٹینڈ اپ گرل"، فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ، کیا زارا کا خواب پوراہوگیا؟



ڈرامہ سٹینڈ اپ گرل فنکار طبقے کے مسائل کاعکاس ہے ۔نجی ٹی وی پرجاری اس ڈرامے کو بہت زیادہ پسند کیاگیا،اس کے اختتام نے  شائقین کی بھرپور توجہ حاصل کی ۔ خاص طور پر نانا نواسی کے شو کو توبہت زیادہ سراگیا، اس کے علاوہ زاراکے شو میں مخدوم دانیا ل کی انٹری باکمال رہی۔

اس کی پسندیدگی کی مختلف وجوہات ہیں ۔ اس ڈرامے میں پہلی بار زارا نور اور دانیال ظفر  ایک ساتھ  کام کررہے ہیں۔’سٹینڈ اپ گرل‘ کی کاسٹ میں اداکارہ زارا نورعباس کے ساتھ سہیل احمد، دانیال ظفر، صبا فیصل، عدنان شاہ ٹیپو، فرح طفیل، مائرہ خان، تمکنت منصور اور سعد اظہر شامل ہیں۔ڈرامے کی کہانی لڑکی کی زندگی کے دلچسپ سفر پر مبنی ہے جس میں وہ معاشرے کے عام دستور کو چھوڑکر سٹینڈ اپ کامیڈین بننے کیلئے معاشرے کی توقعات سے بغاوت کرتی ہے جو اس کے خواب کو چکنا چور کرنے کے درپے ہے۔وہ ان مشکلا ت کا مقابلہ کرنے میں کوشاں ہے ، اسی دوران کہانی میں متوازی نوجوان کی کہانی سامنے آتی ہے جو لوئر کلاس کامیڈین فیملی سے تعلق رکھتا ہے اوراسے بھی سٹینڈ اپ کامیڈین بننے کا بے حد شوق ہے مگر اسے اپنے سگے رشتہ داروں کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہے۔خوابوں کی تعبیر پانے کی جدوجہد کے ذریعے ڈرامے میں عزم کے پختہ ہونے اور حقیقی خلوص کیساتھ چیلنجز کا مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے

۔سیریل کو تین  رائٹرز عدیل افضل، اویس احمد اور بی گل نے بڑی خوبصورتی سے تحریر کیا ہے جبکہ کاشف نثار نے اس دلچسپ ڈرامے کی ہدایات دی ہیں۔ سٹینڈ اپ کامیڈین ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی کے حوالے سے بات کریں تو زارا  اسلام آباد میں پلی بڑھی ہے اور یونیورسٹی کے سٹیج پر سٹینڈ اپ کامیڈی کرتی رہی ہے۔ اس کامیڈی  کی وجہ سے  یونیورسٹی سے نکالا بھی جاتا ہے اور حالات ایسے بنتے ہیں کہ اس کی ماں کینسر سے لڑتی لڑتی اس دنیائے فانی کو چھوڑ جاتی ہے اور زارا کو اپنے باپ امیر علی خان کے سپرد کر دیتی ہے۔زارا کو اپنی ماں سے ہسپتال میں ہی علم ہوتا ہے کہ جو لوگ ہسپتال میں ہیں، وہ اس کے نانا اور ماموں ہیں۔اس کی ماں عمر بھر اس سے اپنی اصلیت چھپا کے رکھتی ہے کہ وہ ایک سٹینڈ اپ کامیڈین امیر علی خان کی بیٹی ہے، جس کی اپنے دور میں بطور فنکار اپنی پہچان تھی۔اس کے ایک ماموں بھی سٹیج اداکار ہیں، لیکن گزر بسر کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔اس کی ماں نے جو مثالی خواب بنے ہوئے تھے، وہ بیٹی کو اتنے سنائے کہ اس کے لیے اصل زندگی کو قبول کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ 

 اس کی ماں نے تو اسے بتایا تھا کہ اس کے نانا کوئی بہت خاندانی و دھیمے مزاج کے انسان ہیں۔ اس کے ماموں سول سروس میں ہیں لیکن جب وہ اسلام آباد سے اچانک اور حادثاتی طور پہ اندرون لاہور آتی ہے تو الجھ جاتی ہے۔وہ کسی طور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتی ہے۔ نانا اس کے ساتھ جاتے ہیں تو پرنسپل پہچان لیتا ہے کہ یہ تو اپنے وقت کے بہت بڑے سٹیج کامیڈین رہے ہیں۔زارا کو حیرت تو ہوتی ہے کیونکہ وہ تو اپنے نانا اور ماموں کو ان کے ظاہری حال اور رہن سہن سے پہچاننے کی کوشش میں ہے، جو سب اپنے حال میں مست زندگی گزار رہے ہیں، جن سب کی زندگی میں زارا کے آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔زارا کی ماں نے برسوں پہلے اس شناخت سے منہ موڑ کر کسی سے شادی کر لی تھی، اس کے بعد اس کا رابطہ کبھی بھی خاندان سے نہیں رہا۔اس کی خالہ طلاق کے بعد اپنے ابا اور بھائیوں کے پاس ہی رہ رہی ہے۔ امیر علی خان کے بہت شاگرد ہیں۔ ایک ان کے ساتھ بھی رہتا ہے۔ ایک شاعر حضرت پڑوس میں مقیم ہیں لیکن اندرون لاہور کے روایتی مل جل کے رہنے والی تہذیب کے مطابق امیر علی خان کے گھر میں ہی پائے جاتے ہیں۔سٹنیڈ اپ کامیڈین بننا یا ہونا زارا کو ورثے میں ملا ہے۔ یہ اس کی چوائس یا مجبوری بعد میں بنتا ہے۔زارا کی ملاقات کبیر سے ہوتی ہے  پہلے ان کی ملاقات اسلام آباد پھر لاہور میں ایک کیفے میں ہوتی ہے۔یہ کیفےکبیر کے دوست کا ہی ہے، جہاں سے زارا اور کبیر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں  کبیر ایک تخلیق کار ہے، شاعر اور موسیقار ہے، لیکن ابھی وہ اپنے تخلیقی بندش کے دور سے گزر رہا ہے، جو زرا کے آنے سے اچانک ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں بحران سے گزر رہے ہیں، یوں دوست بن جاتے ہیں۔کبیر پنجاب کے کسی زمیندار گھرانے کا سپوت ہے،  اس کردار میں اچانک ٹوئسٹ آتا ہے اور عین بہترین پرفارمنس کے وہ اچانک غائب ہوجاتا ہے اس کی فکر زارا اور سب کو ہوتی ہے۔ 

اس ڈرامے  کے اختتام  پرزارا اور کبیر کی ملاقات ہوتی ہے، کبیر بتاتا ہے کہ وہ کیوں غائب ہوگیا تھا اور اس کا خواب کیا تھا، وہ جس چیز سے بھاگتا رہا اس کے والد کی وفات کے بعد اس کو وہی کام کرنا پڑا۔

اس ڈرامے میں اندروز لاہور کی عکاسی بہترین طریقے سے کی گئی ہے اس کے ساتھ فنکار برادری کو درپیش مسائل اور معاشرے میں مقام اور جدوجہد کی عکاسی بہترین ہوئی ہے ۔ اس ڈرامےمیں سب سے  جاندار اداکاری میں سہیل احمد نظر آتے ہیں جو دھیمے لہجے کی وجہ سے شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھتے ہیں اور زارا کو کہے گئے ان کے جملے بھی پسند کیے گئے ہیں ۔ڈرامہ سیریل ’سٹینڈ اپ گرل‘ کا اچھوتی بات ہی پنجابی مزاح اور اس سے جڑے لوگوں کی کہانی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ شاید یہ مزاح صرف پنجابیوں کو ہی سمجھ آ سکے گا۔ لیکن زارا نور عباس ان تحفظات کو رد کرتی ہیں۔ان کے خیال میں اس ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ اِس کہانی کا نیا پن ہے۔ 



نوٹـ: یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری  نہیں ہے 



تعارف:حرااسلم بلاگر ہیں ،انہوں نے ماس کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ ان کو مختلف سماجی موضوعات پر لکھنے کا شوق ہے،وہ مختلف ویب سائیٹس پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔



Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts