نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

”تعلیم بالغاں“ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ورکشاپس


محمدنویداسلم
نوائے درویش

طنز ومزاح سے بھرپور ڈرامائی تحریر ایک فن ہے۔ڈرامہ تعلیم بالغاں کو دیکھ کراس بات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ڈرامہ نگار نے مختلف مسائل کا ذکر چھیڑتے ہوئے تعلیم اور محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کا بھی رونا رویا ہے۔ ہم لوگ وقت پر تعلیم حاصل نہیں کرتے جب تعلیم حاصل کرنے کا وقت گزر جاتا ہے تو پچھتاوے کی حالت میں ہاتھ ملتے رہتے ہیں اور پھر تعلیم بالغاں کا سلسلہ شروع کرنا پڑتا ہے۔ جو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔
طنز و مزاح کا مطلب محض ہنسنا ہنسانا نہیں ہوتا بلکہ مزاحیہ و طنزیہ نشتروں کے ذریعے معاشرے کے پھوڑوں پر نشتر زنی کرتے ہوئے فاسد مادوں کا انخلاکرنے کی صور ت میں قوم و ملت کا علاج کیا جاتا ہے، تاکہ صحت مند معاشرہ معرض وجود میں آسکے۔ چنانچہ ہم اسی مقصد کے تحت ڈرامہ نگار نے تعلیم بالغاں میں طنزیہ و مزاح کے نشتر استعمال کرتے


ہوئے ہماری بہت سی بیماریوں اور گمراہیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے
آغا حشر کاشمیری کے بعد برصغیر کے دوسرے بڑے ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین تھے، جنہوں نے مرزا غالب بندر روڈ پر اور تعلیم بالغاں جیسے مشہور ڈرامے لکھے، ہم میں سے بہت سے لوگوں کو خواجہ معین الدین کا لکھا ہوا ڈرامہ ”مرزا غالب بندر روڈ پر“ ضرور یاد ہوگا جس میں اردو کے اس مشہور شاعر کو پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔سبحانی با یونس، خواجہ معین الدین احمد جیسے عظیم ڈرامہ نگار کی ٹیم میں شامل تھے اور انہوں نے ان کے متعدد ڈراموں میں لازوال کردار ادا کئے، جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ”مرزا غالب بندر روڈ پر“نے ہی پائی۔ اس ڈرامے میں سبحانی بایونس نے غالب کا کردار ادا کیا اور پھر اس کے بعد وہ اس کردار کیلئے لازم و ملزوم بن گئے۔سبحانی بایونس نے تعلیم بالغان، محمد بن قاسم، قصہ چہار درویش، مرزا غالب بندر روڈ پر، خدا کی بستی، سسی پنوں، دو دونی 5 جیسے سپر ہٹ ڈراموں میں اپنی لازوال اداکاری کے جوہر دکھائے۔” تعلیم بالغاں “میں قصائی کے کردار سے انہیں شہرت حاصل ہوئی۔
درویش اس بلاگ میں کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا لیکن بات’تعلیم بالغاں“ کی وجہ سے کافی دور چلی گئیں۔ ہمارے ملک کے نظام تعلیم میںعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی“ ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو معمر سے معمر افراد کوبھی تعلیم کی پیاس بجھانے کا پورا پورا موقع دیتا ہے۔



علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان میں واقع ایک یونیورسٹی ہے جو فاصلاتی نظام تعلیم کی ایشیا کی بڑی جامعات میں شمار کی جاتی ہے۔ قائد عوام ذو الفقار علی بھٹوکی عوامی حکومت نے 1974میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت پیپلز اوپن یونیورسٹی قائم کی بعد میں جب قائدعوام نے 1976 کو قائداعظم ؒاور 1977 کو علامہ اقبالؒ کا سال قرار دے کر صد سالہ جشن منانے کا اعلان کیا ،سرکاری سطح پر 9 نومبر کو ہر سال عام چھٹی منانے کا فیصلہ ہوا ، تو علامہ اقبال کے اعزاز میں پیپلز اوپن یونیورسٹی کو بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نام دے دیا۔
میں نے اپنے اس بلاگ میں اس یونیورسٹی کا تذکرہ اس وجہ سے کیا کیونکہ میرا ماس کمیونیکیشن کا آخری سیمسٹر ہے اور اس کی ورکشاپس آج کل ہورہی ہیں۔ مجھے ان کلاسز کی وجہ سے نصاب کوسمجھنے کا موقع ملتا ہے جو پیپروںکی تیاری کے لئے ممد ومعاون ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کی وجہ سے بہت سے اچھے اساتذہ ملے اور کچھ ایسے دوست ملے جن کوسرمایہ حیات کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔امتحانی سینٹر ہو یا ورکشاپ کی کلاس ہم سب ایک ساتھ ہی بیٹھتے ہیںاور اگر کوئی دیر سے آئے تو میں جگہ رکھ کریہ برملایہ کہتا ہوںکہ میرے ”گرل فرینڈز “کی جگہ ہے ،براہ کرم کوئی نہ بیٹھے۔ سب دوست احترام کرتے ہیں اس وجہ سے کسی سے جھگڑا نہیںہوتا۔ اس بلاگ میںاگر گریٹ سر شبیر صادق صاحب کاتذکرہ نہ کروں تو ادھورا ہی ہوگا۔انہوںنے سارے سیمسٹرز میںبھرپور رہنمائی فرمائی۔ اگلے بلاگ میں ورکشاپ کے اختتام اور یونیورسٹی کی یادوںاور بہت سے اساتذہ کاتذکرہ کروں گاجس میں اسے ہمارے انتہائی شفیق کورآڈی نیٹر سر نصیر ہاشمی بھی ہیں۔درویش کی اگلی نواءتک سب دا بھلا تے سب دی خیر........



Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts