"وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو"
انسان کہیں نہ کہیں،کبھی نہ کبھی،کسی نہ کسی موڑ پر اپنے لیے نگرانی،اپنے لیے نگہبانی اور اپنے لیے مہربانی سے محروم ہوتاہے۔ زندگی کے کسی مرحلے پر اسے نگرانی،نگہبانی اورمہربانی کے لیے خود کردارنبھاناہوتاہے۔ وقت کے سفر کے ساتھ ساتھ جب گھرسوناہونے لگتاہے،جب والدین پردہ کرتے ہیں، جب اپنے بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر آن پڑتاہے۔ پھرجوتوقعات انسان نے اپنے بڑوں سے وابستہ کررکھی ہوتی ہیں وہی توقعات اسے خود بھی نبھاناپڑتی ہیں۔ اسی بات کووسیع تناظرمیں دیکھاجائے تو مادروطن ہماری نگرانی،نگہبانی اور مہربانی کافریضہ نبھاتی ہے ۔ وہ ہمیں ہرقدم پرآزادی کااحساس دلاتی ہے۔ کہنے کوتو ہم اس آزادی سے بھی تنگ ہیں مگر تصورکرکے دیکھیں کہ تقسیم سے پہلے کی طرح ہم رام رام کرنے اور محکومی کے احساس کے ساتھ زندہ رہنے پرپھرسے مجبورہوجائیں یاتصورمیں یہ لائیں کہ محکوم ومجبورزندگی سے بھی بڑی کوئی اذیت ہوسکتی ہے تواحساس ہوگاآزادی بڑی نعمت ہے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔
یہ ٹھیک ہےآج ملک میں مہنگائی ہے،بے روزگاری ہے،دہشت گردی ہے مگرابھی تک خود کوپاکستانی قراردینے اور اپنی شناخت کرانے میں ہم آزاد ہیں۔ یہاں آزادی اوراپنی شخصیت کی پہچان کی اہمیت پوچھنی ہوتو اپنے دہری شہریت والے دوست احباب سے پوچھ لیں وہ معاشرتی اورمعاشی آسودگی کے باوجود دیگرممالک میں اول درجے کے شہری نہیں ہیں۔ وطن عزیز
کی آزادی ایسی نعمت عظمی ٰہے جس کے حصول کیلئے انسان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ اس ریاست کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباء و اجداد نے شہادتیں دیں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ہمیں تو یہ مُلک وراثت میں مل گیا کوئی قربانی نہیں دینا پڑی۔پاکستان بنانے والوں کو ملک کی بنیادیں کھڑی کرنے کےلئے ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ ، گوشت گارے کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہواہے۔ پاکستان کی آزادی اور اس کو بنانے والوں نےاتنی گراں قدر اور بیش قیمت قربانیاں دی ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا آزادی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں اپنا تن من دھن، عورتیں بچے بوڑھے اور جوان سب کچھ قربان کیا ہو ۔ آزادی کےلئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بہن بھائی والدین خاندان اور بچے قتل کر دئیے گئے۔ کتنی پاکدامن ماؤں بہنوں بیٹیوں نے نہروں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر جانیں قُربان کیں اور پاکستان کی خاطر بھاری قیمت ادا کی ۔
آج ہم آزادہیں توہمیں آج بھی اس کی بھاری قیمت اداکرناپڑرہی ہے۔پاکستان کو دہشت گردی کاعفریت چمٹاہواہے۔کوئی دن ایسانہیں ہوتاجوہماری سلامتی کی دشمن طاقتوں کی جانب سے پاکستان پروارنہ کیا جاتاہو۔دہشت گردی کے عفریت کے نشانے پر پاک فوج،عوام، پولیس اَور چینی اہل کار ہیں۔ آئے دِن پاک فوج اَور پولیس کےجوان اور بے گناہ جامِ شہادت نوش کررہے ہیں۔ دہشت گرداپنے طریقہ ہائے کاربدل بدل کرہم پرحملہ آورہورہے ہیں۔ ایسے لگتاہے کہ پاکستان مخالف سوچ رکھنے والوں نے ایکا کرلیاہے۔
دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ مسئلے کی اصل جڑ ہمارے اَپنے معاشرے میں دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ہمارے یہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام میں عدم برداشت اَور تشدد کا رْجحان پیدا کیا گیا۔ہم لوگوں نے ہی افغانستان میں طالبان کی ہمدردی اَور مدد کی ۔جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ پیش آیا اَور بعد میں چینی انجینئروں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو ہمارے حکمرانوں میں سے کچھ لوگ جاگے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ضروی ہے کہ دہشت گردی کے لیے دیرپا حل کے لیے مل کر بیٹھیں اور ایک جامع حکمت ِعملی وضع کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ فساد پھیلانے والے عناصر کو کوئی حکومت سہارادے گی اور نہ ہی کھلی یا پوشیدہ حمایت کرے گی۔ ایسے عناصر کو عالمی سطح پر وارننگ دی جائے اور اگر وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے تباہی کے راستے پر گامزن رہیں تو پھر ان کے ساتھ سختی سے نمٹاجائے۔
ہماری معاشی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان نے 1950ءسے 1990ءکے دوران 40 سال قابل ستائش ترقی کی حالانکہ آزادی کے بعد پاکستان میں صنعت پسماندہ تھی۔ لاکھوں مہاجرین کا بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ 1965ءاور 1971ءکی جنگوں نے پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا۔ 1980ءکی دہائی میں پاکستان نے امریکا کی افغان وار لڑی۔ بھٹو دور میں کلیدی صنعتوں کو نیشنلائز کیا گیا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی گروتھ بھارت سے آگے تھی جو اوسط 6 فیصد رہی۔ قومی معیشت اتنے وسائل پیدا نہیں کرتی کہ بیرونی ذرائع پر پاکستان کے انحصار کو کم کیا جا سکے۔ آپریشنل سطح پر معیشت نے عوام کے معاشی مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ انسانی و معاشرتی ترقی کیلئے وسائل کے ناقص اختصاص کی روایت بھی ایک وجہ ہے۔موجودہ معاشی چیلنج جو عام آدمی کو پریشان رکھتا ہے‘ تمام ضروری اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیرجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت اہم ہےکاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بناکرملک کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، ۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی معاشرت تب بہترہوگی جب امن وامان کی صورتحال بہترہوگی،جب امن کی فضا پروان چڑھے گی اور جب ہرکوئی سونااچھالتے ہوئے بلاخطرسڑکوں اورگلیوں میں سے گزرسکے گا۔ امن وامان کی صورتحال بہترہونے سے معیشت میں بہتری آئے گی۔ معیشت میں بہتری آنے سے عدم برداشت کے معاشرتی رویوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ امن وامان کی صورتحال بہترہوئی تو ہماری بگڑی ہوئی اخلاقی اقدارکوسہاراملے گا۔ دہشت گردی سے پاک فضا اور بہترمعاشی صورتحال کے لیے سب سے پہلے سیاسی رواداری کوفروغ دیناہوگا۔امن وامان کی صورتحال بہترہونے اور معیشت کے فروغ سے رواداری اور برداشت کی راہ ہموارہوگی جس پر چل کرپاکستان دنیا میں اپنا تشخص بہترکرسکے گا۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
No comments:
Post a Comment