طلعت حسین۔۔۔۔ منفرد لب ولہجے کا اداکار۔۔۔۔عمدہ ڈائیلاگ ڈلیوی اور دھیمہ انداز۔۔۔سننے والا شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوجاتا
ڈائیلاگز ڈلیوری کے بعد تھوڑا توقف۔۔۔۔ پھر دو قدم چلنا یا کھڑے کھڑے گھومنا ۔۔۔اس کے بعد سامنے والے پر نظر ڈالنا اور پھر دوبارہ ڈائیلاگز۔۔۔الفاظ کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ۔۔۔۔۔ کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں زور دینا ہے۔۔۔ ۔۔یہ سب طلعت حسین کی شخصیت کا خاصہ تھے
طلعت حسین کو اپنے انداز اداکاری اور فن پر عبور کی وجہ سے ڈرامہ نگاری کاشیکسپیئر اور پاکستان انڈسٹری کا دلیپ کمار کہاجاتاتھا لیکن وہ اس پر فخر کرنے کی بجائے اپنی اداکاری کو نکھارنے پر توجہ دیتے
ان کا شمار اپنی نسل کے سب سے عمدہ صداکاروں میں ہوتا ہے، انہوں نے ضیا محی الدین، محمد علی اور طارق عزیز جیسے باکمال شخصیات کی موجودگی میں جگہ بنائی
طلعت حسین کی بیٹی تزین حسین نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اداکاری کا شعبہ اپنایا اور کئی کامیاب ڈراموں میں اس وقت انہیں دیکھا جاسکتا ہے
ڈائیلاگز ڈلیوری کے بعد تھوڑا توقف۔۔۔۔ پھر دو قدم چلنا یا کھڑے کھڑے گھومنا ۔۔۔اس کے بعد سامنے والے پر نظر ڈالنا اور پھر دوبارہ ڈائیلاگز۔۔۔الفاظ کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ۔۔۔۔۔ کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں زور دینا ہے۔۔۔ ۔۔یہ سب طلعت حسین کی شخصیت کا خاصہ تھے جو اب ہم میں نہیں رہے۔ طلعت حسین کو اپنے انداز اداکاری اور فن پر عبور کی وجہ سے ڈرامہ نگاری کاشیکسپیئر اور پاکستان انڈسٹری کا دلیپ کمار کہاجاتاتھا لیکن وہ اس پر فخر کرنے کی بجائے اپنی اداکاری کو نکھارنے پر توجہ دیتے۔
پی ٹی وی کے دور کو جو لوگ جانتے ہیں وہ ڈرامہ "کشکول" کے کردارفضل جاہ کے انداز اداکاری اور شخصیت کو نہیں بھولے ہوں گے۔ یہ کردار طلعت حسین نے اداکیا تھا۔
پی ٹی وی کا ایک اور ڈرامہ "ہوائیں" جس میں طلعت حسین نے میر محمد کا کردارادا کیا تھا اس کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کا شمار اپنی نسل کے سب سے عمدہ صداکاروں میں ہوتا ہے، انہوں نے ضیا محی الدین، محمد علی اور طارق عزیز جیسے باکمال شخصیات کی موجودگی میں جگہ بنائی۔ان چاروں نے آغاز ریڈیو سے کیا جہاں تصویر کی عدم موجودگی میں لب و لہجہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
طلعت حسین کی والدہ ریڈیو پاکستان سے منسلک تھیں اور آخری دم تک ریڈیو سے وابستہ رہیں۔ طلعت حسین نے بچپن سے ہی گائیکی‘ مصوری اور کرکٹ کا شوق رکھتے تھے ۔بچوں کے پراگرام’’سکول براڈ کاسٹ ‘‘ سے اپنے کیرئر کا بچپن میں آغاز کیا ۔ داد ملتی گئی، لوگ پسند کرنے لگے۔ پھرانہوں نے سٹوڈیو 9 میں کام شروع کر دیا۔
طلعت حسین کی شخصیت کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ڈائیلاگز ڈلیوری پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے اور اتنے دھیمے انداز سے بولتے تھے کہ سننے والا محو ہوجاتا تھا اور ان کے سحر میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ طلعت حسین نے سر حد پار بھی کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا۔ وہ گوروں کے دیس بھی گئے اور محبتوں کے نشان چھوڑ آئے۔ انہوں نے جب ٹی وی پر کام کیا تو اس وقت بلیک اینڈ وائٹ کا دور تھا لیکن ان کی اداکاری کے معترف سب ہوئے۔
ان کے جداگانہ انداز اور تاثرات بھری اداکاری نے فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر میں منفرد مقام دلوایا۔ مگر ریڈیو سے ان کی وابستگی میں ذاتی اور جذباتی وجوہات پائی جاتی تھی۔اس کی ایک وجہ ان کی والدہ کا ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونا بھی تھا۔
الفاظ کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ، کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں زور دینا ہے اور آواز کے ذریعے جذبات نگاری کا فن طلعت حسین نے ریڈیو سے سیکھا۔
نامور صداکاروں ایس ایم سلیم، عبدالماجد، فضل کمال اور سلیم احمد کی رہنمائی اور قربت سے نہ صرف طلعت حسین کی صداکاری میں نکھار آیا بلکہ انہیں تاریخ، فلسفہ اور آرٹ کے مضامین میں غیر معمولی دسترس بھی حاصل ہوئی۔ 1940 میں انڈیا میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی اور انھوں نے فنونِ لطیفہ کو نصف صدی دی ہے، یعنی انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری، آرٹ اور فن کے لیے وقف کر دیا۔
طلعت حسین کو شہرت 1970 کے دور سے ملنا شروع ہوئی۔ طلعت حسین نے چند فلموں میں بھی کام کیا جبکہ سٹیج تھیٹرز پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد اور دیگر شامل ہیں۔
لندن میں اداکاری کی اعلی تعلیم کے دوران بی بی سی میں کام کیا۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ طلعت حسین نے پاکستان کے باہر بھی کئی چینلز پر اداکاری کی جن میں لندن چینل فور کی مشہور زمانہ سیریز ٹریفک میں لاجواب اداکاری کی ۔ ہالی وڈ مین فلم سوتن کی بیٹی میں عمدہ پرفارمنس دی ۔ طلعت حسین کے مقبول ٹی وی ڈراموں میں ہوائیں ، کشکول ، طارق بن زیاد اور دیگر شامل ہیں اپنی بہترین اور منفرد اداکاری کے جوہر دکھائے ۔طلعت حسین نے جب اس فیلڈ میں آنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کی والدہ نے اس کی مخالفت کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ان کے شوہر کی طرح سول سروس میں جائے۔ لیکن بیٹے کی ضد کے سامنے وہ بے بس تھیں۔ 1962 میں انہوں نے ہدایت کار فضل کریم فضلی کی چراغ جلتا رہا سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔یہ وہی فلم تھی جس نے محمد علی، زیبا بیگم، دیبا بیگم اور کمال ایرانی جیسے اداکاروں کو متعارف کرایا۔ بعد میں محمد علی اور طلعت حسین نے فلم انسان اور آدمی میں باپ بیٹے کا کردار بھی نبھایا جب کہ زیبا بیگم اس فلم میں ان کی ماں کے کردار میں نظر آئیں۔
انگلش لٹریچر میں گریجو یشن کرنے کے بعدنگار ایوارڈ یافتہ طلعت حسین نے اداکاری کی باقاعدی تربیت لندن جا کر تھیٹر آرٹس میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔1972ء میں ان کی شادی پروفیسر رخشندہ سے ہوئی۔ سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔
طلعت حسین کی بیٹی تزین حسین نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اداکاری کا شعبہ اپنایا اور کئی کامیاب ڈراموں میں اس وقت انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں جب کہ ان کے بیٹے اشعر حسین نوے کی دہائی میں ڈرامہ سیریز 'روزن زنداں' میں نظر آئے تھے۔
طلعت حسین کا آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سے گہرا تعلق تھا اور وہ آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کا حصہ بھی رہے۔آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے طلعت حسین کے انتقال پر گہرے غم اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ طلعت حسین جیسا اداکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور فن اداکاری میں طلعت حسین کا کوئی ثانی نہیں تھا۔احمد شاہ نے مزید کہا کہ طلعت حسین کم سے کم ڈائیلاگ ڈیلیوری پر یقین رکھتے تھے اسی لیے مکالموں کے دوران ان کے سٹریس اور پازز نے انھیں ایک منفرد مقام دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے طلعت حسین کی وفات پر افسوس کا اظہارکیا۔وزیر اعظم ہاؤس سے جاری تعزیتی بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ طلعت حسین نے اپنی جاندار اداکاری سے دنیا بھر کے ڈرامہ اور فلم شائقین کے دل میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا اسے کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’ طلعت حسین فن اداکاری میں اپنی مثال آپ تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ طلعت حسین ایک منفرد فن کار تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر دلی افسوس ہوا۔پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں طلعت حسین کے چاہنے والے افسردہ ہیں۔
No comments:
Post a Comment