سنتوش کمار۔۔۔رومانوی ہیرو نے کئی فلموں میں لازوال کردار نبھائے اور دو عشروں تک فلم انڈسٹری پر راج کیا
اصل نام سید موسیٰ رضاتھا تاہم اس دور کی روایت کے مطابق فلمی نام سنتوش کمار سے مشہور ہوئے، ہمسایہ ملک کی چند فلموں میں جلوہ گر ہونے کے بعد لاہور چلے آئے۔ان کے والد کاروباری شخصیت تھے
سنتوش پہلی پنجابی فلم 'بیلی' میں جلوہ گر ہوئے۔اسی سال انہوں نے پاکستان کی پہلی اردو سلور جوبلی فلم 'دو آنسو' میں ہیرو کا تاریخ ساز کردار ادا کیا
پاکستان کا پہلا نگار ایوارڈ بھی فلم 'وعدہ' کیلئے سنتوش کے حصے میں آیا، وہ اپنے دور کے ایک اور معروف ہیرو درپن اور فلم ڈائریکٹر سید سلیمان کے بھائی تھے
سنتوش کمار اور صبیحہ کی جوڑی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں جذبات سے بھرپور رومانوی اداکاری کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ’سر فروش‘ اور ’قاتل‘ نامی فلموں سے اس خوبرو جوڑے کوبہت سراہاگیا
"چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض" یہ فلم "سرفروش" کا ڈائیلاگ ہے، انور کمال پاشا کی اس فلم میں سنتوش کمار نے اداکاری کی تھی،یہ ڈائیلاگ اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی ایک حوالے اور استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔سنتوش کمار کی کامیاب فلموں میں گھونگھٹ، رشتہ، دامن، سیما، سفید خون، بیس دن، آزاد، چنگاری جیسی فلمیں شامل ہیں۔
لالی وڈ کی کلاسک فلموں کے دور میں رومانس کا جادو جگانے والے اداکار سنتوش کمار کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ سنتوش کمار ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے ۔انہوں نے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کاروبار کوشعار نہ بنایا بلکہ انڈسٹری میں قدم رکھ دیا۔ جذبات میں ڈوبے مکالموں اور نکھرے اور ستھرے لہجے نے ان کی شہرت سرحد پار پہنچا دی۔
پاکستانی فلموں میں رومانویت کی جو روایت سنتوش سے چلی تھی آنے والے برسوں میں محمد علی، وحید مراد اور ندیم نے اسے مزید آگے بڑھایا۔ ستر کی دہائی سے ہماری فلموں کے موضوعات اور انداز میں تبدیلی آنا شروع ہو گئیں۔ رومانوی ہیرو نے کئی فلموں میں لازوال کردار نبھائے اور دو عشروں تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔
اصل نام سید موسیٰ رضاتھا تاہم اس دور کی روایت کے مطابق فلمی نام سنتوش کمار سے مشہور ہوئے، ہمسایہ ملک کی چند فلموں میں جلوہ گر ہونے کے بعد لاہور چلے آئے۔ان کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔انہیں فلمی دنیا اور ان کے مداح ایک باکمال اداکار ہی نہیں بلکہ بااخلاق اور نہایت شائستہ و مہذب انسان کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔رومانوی کرداروں کو اپنی اداکاری سے یادگار بنا دینے والے سنتوش کمار نے کئی اداکارائوں کے ساتھ کام کیا، لیکن صبیحہ خانم فلم انڈسٹری کا وہ نام ہیں جن کے آگے سنتوش نے اپنا دل ہار دیا اور وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
قیام پاکستان سے قبل انہوں نے1947 میں پہلی فلم 'اہِنسہ' میں کام کیا۔پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئے اور 1950 میں سنتوش پہلی پنجابی فلم 'بیلی' میں جلوہ گر ہوئے۔اسی سال انہوں نے پاکستان کی پہلی اردو سلور جوبلی فلم 'دو آنسو' میں ہیرو کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی قیام پاکستان کے بعد بحیثیت اداکارہ اور گلوکارہ پہلی فلم ’چن وے‘ تھی جس میں ان کے مدمقابل سنتوش کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔
1953 میں سنتوش کمار اورسورن لتا کی فلم ’شہری بابو‘ نے دھوم مچا دی۔ اس فلم کی خاص بات ماسٹر عنایت حسین بھٹی کا صوفی گیت ’بھاگاں والیو نام جپو‘ کا نیا تجربہ تھا۔ رومانوی شاعری کے پہلو بہ پہلو صوفی شاعری کی فلموں میں شمولیت کا تجربہ خاصا کامیاب رہا۔مینا شوری کے ساتھ ان کی ایک فلم ’بیداری‘ کا ایک نغمہ آج بھی اہم قومی مواقع پر سننے کو ملتا ہے۔
سلیم رضا کی آواز میں سنتوش پر فلمایا گیا نغمہ ’آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘ میں پاکستان کے اہم مقامات اور ثقافت کو دکھانے کی کوشش کی گئی۔
سنتوش کمار اور صبیحہ کی جوڑی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں جذبات سے بھرپور رومانوی اداکاری کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ’سر فروش‘ اور ’قاتل‘ نامی فلموں سے اس خوبرو جوڑے کوبہت سراہاگیا۔1957 اس جوڑی کے لیے کامیاب فلموں کا سال تھا۔ ’عشق لیلی‘ وعدہ ’سردار‘ اور ’سات لاکھ‘ جیسی شاہکار فلموں نے دونوں کی شہرت آسمان کی بلندی تک پہنچا دی۔
صبیحہ سنتوش لالی وڈ کی پہلی رومانوی جوڑی کہلائی، 1958 میں صبیحہ سے شادی کے بعد 37 فلموں میں اکٹھے جلوہ گر ہوئے، سنتوش کمار کی فلم موسیقار ہمسایہ ملک میں ریلیز ہوئی تو انہیں بہت زیادہ سراہاگیا۔شمیم آرا کے ہمراہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم میں جلوہ گر ہونے کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا، فلم وعدہ میں زبردست ادا کاری پر نگار ایوارڈ کے حقدار بنے۔خواجہ خورشید انور کے ساتھ ان کی فلموں ’انتظار‘ اور ’گھو نگھٹ‘ میں اداکاری پر بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی سنتوش کمار کے حصے میں آیا۔
رومانوی ہیرو کی پہچان رکھنے والے اس فنکار نے ’سرفروش‘ نامی ایکشن فلم میں بھی کام کیا اور فلمی شائقین سے خوب داد سمیٹی۔
سن پچاس کے عشرے میں صبیحہ خاتم اور سنتوش کمار نے کئی فلموں میں اکٹھے کام کیا تھا مثلاً، غلام، رات کی بات، قاتل، انتقام، حمیدہ، سرفروش ،عشقِ لیلیٰ، وعدہ، سردار، سات لاکھ، حسرت، مکھڑا، دربار وغیرہ۔ان میں وعدہ اور سات لاکھ ایسی فلمیں ہیں جن کی شوٹنگ کے دوران صبیحہ خانم اور سنتوش کمار ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اور بالآخر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
سنتوش اور صبیحہ 1958 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ سنتوش کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی بیوی جمیلہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں جس نے خوش دلی سے صبیحہ کو قبول کیا اور شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
پاکستان کا پہلا نگار ایوارڈ بھی فلم 'وعدہ' کیلئے سنتوش کے حصے میں آیا، وہ اپنے دور کے ایک اور معروف ہیرو درپن اور فلم ڈائریکٹر سید سلیمان کے بھائی تھے۔1950 سے 1982 تک چوراسی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والاپاکستان کا یہ تاریخ ساز فنکار 11 جون 1982 کو چھپن سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔سنتوش کمار نے 11 جون 1982 کو لاہور میں آخری سانسیں لیں۔ دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔صبیحہ خانم سے ان کے تینوں بچے امریکہ میں مقیم ہیں۔سنتوش کمار کا فن اور اعزازات ہمیشہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ رہیں گے اور ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
Good article
ReplyDelete