ڈرامہ’’یونہی‘‘۔۔۔دائود اور کم یونہی۔۔۔ محبت کربیٹھے۔۔۔کم اور دائود امریکہ جائیں گے یا پاکستان میں رہیں گے؟
پاکستانی اداکارہ مایا علی اور اداکار بلال اشرف کا نیا ڈرامہ یونہی ناظرین میں بہت زیادہ مقبول ہورہا ہے۔اس ڈرامے کی کاسٹ میں منظور قریشی(حاجی کرامت)، بہروز سبزواری( بشارت علی)،طاہرہ امام(رضیہ)،بلال اشرف(ڈاکٹر دائود)، مایا علی(کنیز فاطمہ)،ماہا حسن(ثریابشارت)،دیپیکا پروانی(ڈاکٹرنوید)،تزئین حسین(اقبال)،دلشاد زلفی شامل ہیں۔
اس ڈرامے کی کہانی انتہائی منفرد ہے اوراس میں مشرق اور مغرب کاامتزاج اوران کی سوچ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے ساتھ یہ بھی دکھایاگیا ہےکہ ایک انسان مغرب میں جتنا مرضی وقت گزار لے وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پاکستان کا رخ ہی کرتا ہے اور اس کاا نتخاب پاکستانی لڑکا ہی ہوتا ہے۔
تاہم وہ شائد یہ بات بھول جاتا ہےکہ جو لڑکیاں مغرب کی فضا میں پلی بڑھی ہو ں وہ پاکستان کے ماحول میں بہت کم ایڈجسٹ کرتی ہیں۔ اظہار رائے کا حق مرد کے پاس ہے تو عورت کے پاس کیوں نہیں ہے؟ایک ہی سماج میں رہتے ہوئے ایک ہی گھر کے اندر اپنے ہی بیٹے اور بیٹی کے لیے الگ الگ اصول ہونے سے معاشرہ کس طرح منفی راہ پہ چل نکلتا ہے اس کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کیا کیا ہوتے ہیں اور کس کس پہ ہوتے ہیں۔انسان کا ظاہر اور باطن زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہے۔
ڈرامہ ’یونہی‘ ایسے ہی ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو مکمل طور پہ اپنی خاندانی روایات پر کار بند رہتا ہے۔ اس ڈرامے میں دکھایاگیا ہے کہ ایک کزن کی منگنی کیا ٹوٹتی ہے لڑکی دل کو ایسا لگاتی ہے کہ مر ہی جاتی ہے۔ خورشید آپا کا انتقال کیا ہوا چھوٹی بہن کو بھی طلاق ہو گئی، کیونکہ روایت نمائی تو یہی ہے۔ 27 برس بعد خورشید آپا کے تایا زاد منگیتر نوید اور ان کی بیٹی کنیز فاطمہ پاکستان آتے ہیں تو سب کی نظر میں وہی ہر طرح کے جمود کے قصور وار ہیں۔ اس گھر پہ ہر طرح کی نحوست انہی کی وجہ سے جیسے اتری ہو اس لیے ہر طرح کی نفرت بھی ان کو اوران کی بیٹی کنیز فاطمہ کو جھیلنی پڑتی ہے۔یہ وہ ذہن سازی ہے جس پہ ایک ڈرامائی احتجاج دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی زندگی آگے بڑھا لی ہے تو آپ بھی اپنی اولاد کی زندگی کو نیا رستہ دیجیے۔ تمام عمر ایک شخص کے غم میں مرنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو قید تنہائی مت دیجیے کہ موت ان کی بارات بنے۔فطرت جو کرتی ہے اچھا کرتی ہے، کا یقین رکھتے ہوئے اپنے پہ سے بھی یہ بوجھ اور ملال اتار دیں اور اپنے سے منسلک رشتوں پہ سے بھی، کہ آسانیاں بونے والوں کو آسانیاں ہی ملتی ہیں۔
اس ڈرامے میں کنیز فاطمہ اور اس کے والد کے شاعر دوست زلفی نے زندگی سے جڑی ہنستی مسکراتی ایک نئی کہانی کا آغاز کیا ہے۔کنیز فاطمہ کا کردار سماج میں عورت اور زلفی کا مردکی سماجی بغاوت ہے۔نوید اور خورشید کی ناکام محبت کے بعد داؤد اور کنیز فاطمہ کی ایک تازہ کزن محبت سے خاندان کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ خاندان نہیں سماج میں بکھرے اعتماد کو بھی بحال کرنے کی سعی ہے۔ وہ سوال جو ہر روایتی لڑکی کے ذہن میں کسی نہ کسی وقت اٹھتے ہیں ان کو امریکن کزن کے کردار سے نرمی سے اور منطقی انداز سے اٹھا یا گیا ہے کہ بغاوت نہیں لگ رہے، حق لگ رہے ہیں۔کنیز فاطمہ کی اپنی کہانی تو وہ خود سب کو بتا دیتی ہے مگر اس گھر کی سب کہانیاں بھی اس کے توسط سے بحران کا شکار ہوتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچیں گی۔زلفی اور کنیز فاطمہ کی دوستی سے ڈرامے میں زندگی سے دوستی کی مہک اٹھتی ہے۔ دادا جی کے کردار سے یہ مکالمے کہلوانا کہ ’نفرت اور غصہ آگ ہیں ان کا بوجھ انسان کو بوجھل کر دیتا ہے۔‘اپنے بھتیجے کومعاف کر دینے سے ان کو اپنا آپ ہلکا لگ رہا ہے۔ یہ آسان زندگی کے عاجز سے فلسفے ہیں جس کو انسان انا کے ستون پہ اٹھائے پھرتا خود بھی بیمار ہو جاتا ہے۔
ڈرامے کی کاسٹ بہت عمدہ ہے، ہر کردار نگینے کی طرح فٹ ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی جس طرح آگے بڑھتی ہے دائوداورکنیز ایک دوسرے سے حقیقت میںمحبت کربیٹھتے ہیں لیکن کنیز فاطمہ یعنی کم امریکہ واپسی کاسوچتی ہے، تاہم کیاوہ دائود کی محبت سے الگ ہوکر امریکہ جاپائے گی ، یہ اس کہانی کا اصل ٹوئسٹ ہوگا اورآگے چل کر ہی پتہ چلے گا۔
No comments:
Post a Comment