"بے بی باجی"۔۔۔۔مشترکہ خاندانی نظام کا بہترین عکاس ۔۔۔۔ گھر میں بھی توازن قائم رکھنے کےلیے بڑوں کاکردار اہم۔۔۔شائقین نے سیزن ٹو پرنظریں لگالیں
حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی‘ نے ہر طرف دھوم مچا دی، کہانی اس وقت زیادہ ہٹ ہوئی جب لوگوں نے اس میں جویریہ سعود کی ایکٹنگ دیکھی اور ’بے بی باجی‘ کے ساتھ ان کی نوک جھوک نے سر اٹھایا۔بے بی باجی کا کردار سینیئر اداکارہ ثمینہ احمد نے ادا کیا۔ڈرامہ سیریل "بے بی باجی" کی ہدایات تحسین خان نے دی ہیں جبکہ مصنف منصور احمد خان تھے ۔اس کی کاسٹ میں جنید جمشید نیازی (واصف)،طوبی انور(فرحت)، جویریہ سعود(عذرا)،آئینہ آصف(ثمن) ،فضل حسین (ولید)،سنیتامارشل(عاصمہ)،فائزہ خان(رحمان)،سعود قاسم،ثمینہ احمد شامل ہیں۔ ثمینہ احمد، منور سعید ، جویریہ سعود ، سنیتا مارشل سمیت دیگر نے اداکاری کے جوہر دیکھائے،60 سے زائد اقساط پرمبنی ڈرامے سے ناظرین پہلی ہی قسط سے جڑے رہے۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار ثمینہ احمد نے ادا کیا، ڈرامے میں سینئر اداکارہ نے بے بی باجی کا کردار نبھایا جو کہ 4 بیٹوں کی ماں ہوتیں ہیں۔ شوہر صدیقی صاحب(منور سعید) کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بے بی باجی اپنے ہی گھر سے بے گھر ہو جاتیں ہیں۔ ہرماہ ایک سے دوسرے بیٹے کے گھر رہنے لگتی ہیں۔
اس ڈرامے میں بےبی باجی کے 4 بیٹے اوران کی الگ الگ زندگیوں کو دکھایا گیا۔ کہ وہ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں ؟ تاہم ڈرامے کی واحد ولن عذرا بھابھی (جویریہ سعود) کے روئیے کی وجہ سے گھر کا ہر ایک شخص پریشان ہوتا ہے۔ جبکہ عذرا اپنی ساس (بےبی باجی) پر ظلم کرتی ہے، یہاں تک کہ ان کو گھر سے بے گھر کر دیتی ہے۔"بے بی باجی" کی کہانی کا مرکزی کردار بے بی باجی(ثمینہ احمد)جن کااصل نام تو راشدہ بیگم ہے لیکن سب ان کو بے بی باجی کہتے ہیں وہ جواپنے چاربیٹوں کےساتھ رہتی ہے۔ بے بی باجی کوشش کرتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور خاص طورپر بہوئوں کو لیکن ڈرامہ کے اختتام نے تو شائقین کوبہت زیادہ افسردہ کیا کیونکہ ڈرامے کے اختتام پر تمام ترتلخیوں کے باوجود بی بی باجی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ میں طوبی انور،جمشید نیازی کا کردار اہم ہے۔ یہ ملٹی سٹا رر ڈرامہ ہے۔ تاہم ڈرامے کی کہانی مشترکہ خاندانی نظام، بیٹوں کی شادیوں کے حوالے سے ہے۔ اس میں یہ بھی دکھایاگیا ہے کہ بیٹوں کی شادی اپنی مرضی سے کرنی چاہئے یا ان کی مرضی سے یا پھر اگر مرضی مسلط کی جائے تو کیا ہوتاہے۔اداکارہ سیدہ طوبیٰ انور نے ’بے بی باجی‘ ڈرامے تیسری یعنی سب سے چھوٹی بہو کا کردارکیا ہے۔
اداکارہ سیدہ طوبیٰ انور نے ہمارا گروپ بنا ہوا ہے، ہم نے مل بیٹھ کر سیٹ پر وقت گزارا، سیٹ کا ماحول بہت اچھا تھا، کوئی ایک ایسا اداکار یا ڈائریکٹر نہیں جس نے ماحول کو خراب کیا ہو۔انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے میں سینئر اور جونیئر اداکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، جہاں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، ہم ایک بہترین اور دوستانہ ماحول میں شوٹنگ کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈائریکٹر بہت اچھے تھے، سیٹ پر 14 کردار کو ایک ساتھ رکھنا، ساری ٹیکنیکل چیزیں دیکھنا لیکن ہھر بھی وہ ایکٹر کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتے تھے۔سنیتا مارشل اور حسن احمد نے ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی‘ کے حوالے سے بات کی۔سنیتا مارشل نے مشترکہ خاندان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی والدین کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو پھر جوائنٹ فیملی کا تصور ٹھیک ہے لیکن اگر ’بے بی باجی‘ کی طرح کسی کا خاندان بڑا ہے تو پھر جوائنٹ فیملی میں نہیں ہونی چاہئے، کسی بھی جھگڑے سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ تمام بیٹوں کو الگ ہوجانا چاہئے۔تاہم ان کے شوہر اور اداکار حسن احمد اپنی اہلیہ سنیتا مارشل کی رائے سے اتفاق تو کیا تاہم انہوں نے کہا کہ مشترکہ خاندان سے خوبصورت کوئی چیز نہیں۔حسن احمد نے کہا کہ اگر خاندان چھوٹا ہو تب بھی جوائنٹ فیملی میں مسلئے آتے ہیں تاہم یہ بچوں اور والدین دونوں پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اسے کس طرح سلجھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جوائنٹ فیملی میں اگر رہنا ہے تو ہر ایک کو کوشش کرنی پڑے گی۔ والدین کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو اپنانا ہوگا۔ان کے مطابق ہمارے بچے موجودہ دور کے ہیں جبکہ ہم پچھلے دور کے، بدلتے وقت کے ساتھ بہت سی چیزیں بدل جاتی ہیں لیکن اگر والدین بھی بدلتے دور کے ساتھ خود کو بدلیں تو بچوں کے لئے بھی ان کے ساتھ چلنا آسان ہوجاتا ہے۔
حسن احمد نے ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں والدین کے ساتھ رہنا بہت مددگار ثابت ہوا ہے کیونکہ ہم دونوں کام کرتے ہیں اور زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ہیں اس دوران وہ ہمارے بچوں پر نظر رکھتے اور ان کا خیال رکھتے ہیں اس لئے میرے خیال میں جوائنٹ فیملی بہتر ہے، اگر گھر کے تمام افراد اس کے لئے کوشش کریں تو اس سے خوبصورت کوئی چیز نہیں۔ثمینہ احمد نے کہاکہ جب مجھے ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی‘ میں کام کرنے کی آفر ہوئی تو مجھے یہ کہانی بہت روایتی لگی، لیکن میرے پرڈیوسر نے کہا کہ آپ نے یہ ڈرامہ ہر حال میں کرنا ہے، تو میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے ذرا سکرپٹ بھیجیں۔ میں نے سات آٹھ قسطیں پڑھیں تو مجھے اس میں دو چیزیں اچھی لگیں ایک یہ کہ اس کی زبان میں بناوٹی رنگ نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ اس میں جو مردوں کے کردار ہیں وہ گھر کے کام بھی کرتے ہیں، صرف یہ نہیں کہ دفتر گئے اور گھروں میں ان کے کردار ہی نہیں ہیں اور ساس بہوئیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔کیا ماؤں کو اپنے بیٹوں کی شادی اپنی مرضی سے اور ان کی خواہش پوچھے بغیر کرنی چاہیے؟ کیا ایسا لڑکا کل کو اپنی بیوی اور بچے کو تنگ نہیں کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بے بی باجی‘ میں، میَں نے اپنے بیٹے نصیر کی شادی اس کی مرضی سے اس لیے نہیں کی کہ لڑکی اس کے لیے مناسب نہیں تھی۔‘ثمینہ احمد مزید کہتی ہیں کہ ’میں ذاتی طور پر بچوں کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کرنے کے حق میں ہوں۔
والدین کو دیکھنا چاہیے کہ ان کے بچے کیا چاہتے ہیں، ان کی خوشی کس بات میں ہے، زندگی تو بچوں نے گزارنی ہوتی ہے تو انہی کی خواہش پوری کی جانی چاہیے کیونکہ ہم نے اپنی زندگی جی لی، اب ان کی باری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہاں اگر بچے غلط طرف جا رہے ہوں تو ان کو سمجھانا چاہیے، اب آپ کی تربیت پر ہے کہ آپ نے کیسی تربیت کی ہے اور بچے آپ کی بات کتنی مانتے ہیں۔‘ ثمینہ احمد نے کہا کہ ’بالکل عذرا جیسے کردار رشتوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں، ظاہر ہے باقی لوگ اگر اس کے رویے کو برداشت نہیں کریں گے ’عذرا جیسے کردار ہوں یا نارمل کردار ہر کسی کا بیک گراؤنڈ مختلف ہوتا ہے، اور فیملی ان کے ساتھ کیسے ڈیل کرتی ہے، وہ جڑ کر رہنا چاہتی ہے یا عذرا جیسے کردار کو الگ کر دینا چاہتی ہے۔ اب جیسے بے بی باجی نہیں چاہتی کہ اس کے بچے الگ ہوں، کیونکہ اگر بڑا بیٹا جس کی بیوی عذرا چاہتی ہے کہ وہ الگ ہوجائیں۔
وہ اگر الگ ہو گیا تو صدیقی صاحب جو کہ میرے شوہر بنے ہوئے ہیں، ان کی سپورٹ بھی کم ہوجائی گے، اس لیے بے بی باجی سب کو جوڑ کر رکھنے کی قائل ہیں۔‘ انہوں نے یہ اعتراف کیا، ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ ڈرامہ سپرہٹ ہو گا بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ کسی بھی ڈرامے کو ہٹ کروانے کا کوئی فارمولا نہیں اگر ایسا ہی ہوتا تو ہر ڈرامہ اسی فارمولے پر بنتا اور ہٹ ہوجاتا ، آڈینس کا مزاج کسی بھی ڈرامے کو ہٹ بناتا ہے۔‘ایک اور سوال کے جوا ب میں ثمینہ احمد نے کہا کہ ’جویریا سعود نے بہت اچھے سے اپنے کردار کو نبھایا ہے، جہاں اس کو نرم ہونا ہے وہاں وہ نرم ہوئی جہاں اس کو سخت ہونا ہے وہاں وہ سخت بھی ہوئی۔ لیکن وہ حقیقت میں ایسی نہیں ہے جیسی سکرین پر نظر آ رہی ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام کی کہانی پیش کرنے والا ڈرامہ سیریل ’بے بی باجی نے مقبولیت کی اونچائی چھونے کے ساتھ ساتھ عوام کے دلوں پر بھی اپنا گہرا اثر چھوڑ ا۔اس ڈرامے میں والد کے انتقال کے بعد رواں ہفتے کچھ اقساط میں ایسے پہلو دکھائے گئے ہیں جن کو صارفین کی جانب سے سراہا گیا ہے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نے ڈرامے میں واصف نامی کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔صارفین نے بیٹے کی حیثیت کے حوالے سے بھی اپنا ردِعمل دیا ۔
بے بی باجی کی کہانی شرو ع میں تو بہت اچھی تھی جیسے ثریا بجیا کی کہانی ہوا کرتی تھی اجتماعی زندگی دکھائی سب ساتھ رہ رہے ہیں محبت ہے ،اداکار سارے منجھے ہوئے ہیں اچھی اداکاری کر رہے ہیں۔لیکن پھر سٹارپلس جیسے انڈین ڈراموں کا رنگ غالب آ گیا اور گھریلو سیاست اور سازشیں دکھائی جانے لگیں۔ ڈرامہ کی ابتدائی اقساط میں ساس کی حکمرانی دکھائی۔ ڈکٹیٹر شپ، جذباتی اور نفسیاتی تشدد بہو کی طرف سے مناسب ہے نہ ساس کی طرف سے۔ ان رشتوں کو بھی نارمل انداز میں دکھانا چاہئے۔ بیٹوں کی تربیت مناسب انداز میں کرنی چاہئے تاکہ وہ خود بھی متوازن شخصیت کے مالک ہوں اور گھر میں بھی توازن قائم رکھ سکیں۔نصیر کا رویہ بیوی کے ساتھ جارحانہ اورغیر حقیقی دکھا یا ہے، جمال کو بیوی کے سامنے بے بس دکھا یا وہ اسے سمجھا نہیں سکے پھر انتہائی شدید ردعمل کے تھپڑ ہی مار دیااور گھر سے بے دخل کر دیا۔آصف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود والدین کی طرف انتہائی کمزور رویہ کا اظہار دکھایا۔
بیٹے اور بہوئیں بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دے رہے، بہووں اور بیٹوں کی لڑائی میں سسرال محاظ جنگ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ جبکہ اداکار حقیقی زندگی میں بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں اور کچھ مکالمے ان کے در میان نامناسب ہیں اگر حقیقی میاں بیوی نہ ہوتے تو مناسب تھا۔ڈرامے کے آخر میں بے بی باجی کے چاروں بیٹے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور اپنی کی جانے والی غلطیوں پر معاف مانگتے ہیں۔ڈرامے کی آخری قسط پر شائقین نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ بے بی باجی کو مارنا نہیں چاہیے تھا، اچھا اختتام کر دیتے تو کیا چلا جاتا۔ایک صارف نے لکھا کہ بے بی باجی نے سب کو روتا چھوڑ دیا، خاص کر کے عذرا نے. ایک صارف نے لکھا کہ جتنے بھی پاکستانی ڈرامے چل رہے ہیں، یہ ڈرامہ سب سے اچھا ہے ۔ سبق آموز تھا یہ ڈرامہ ایک صارف نے لکھا کہ یہ ڈرامے بچوں کے لیے نصیحت ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے تو ڈرامے کا دوسرا سیزن بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔یہ ڈراما آج کے معاشرے کی درست اور حقیقت پر مبنی عکاسی ہے۔ ناظرین کا کہنا ہے کہ شوہروں کی موت کے بعد حقیقی زندگی میں ماؤں کے ساتھ ہونے والا سلوک اور مصائب اس ڈرامے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔بعض مداحوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے دل دہلا دینے والے
ڈراموں کو ٹیلی ویژن پر نشر نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کا معاشرے میں غلط پیغام جاتا ہے۔ ناظرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ڈرامے دیکھنا تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بیٹے شادی کے بعد والدین کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کرتے لیکن بیٹیاں ہمیشہ والدین کے بارے میں اچھا سوچتی ہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ‘اب میں اپنی زندگی میں بیٹا نہیں چاہتا۔بہت سے لوگ ڈرامے میں بیٹوں کے کرداروں کو کوس رہے ہیں جو اپنی ماں کو اپنے گھروں میں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ ناظرین کہہ رہے ہیں کہ وہ بچی باجی کے مناظر کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اس کے تکلیف دہ لمحات نہیں دیکھ سکتے۔
No comments:
Post a Comment