مذاکرات ناکام یاادھورے۔۔؟۔۔۔۔کن امور پر اتفاق رائے ہوا اور کس بات پر اتفاق نہ ہوا؟۔۔۔مذاکرات کا ایک اورحتمی رائونڈ بھی ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔مذاکراتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع۔۔۔معاملات کس طرف جارہے ہیں؟
پی ٹی آئی اور حکومتی اراکین کے مذاکرات کے تیسرے رائونڈ بھی اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ یہ مذاکرات ناکام ہوئے یا ادھورے رہے،ان میں کن امور پر اتفاق رائے ہوا اور کس بات پر اتفاق رائے نہ ہوسکتا۔دونوں فریقین کے درمیان دو پوائنٹس پرتو اتفاق ہوالیکن تیسرے اور اہم پوائنٹ الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اس طرح تیسرا رائونڈ ختم ہوگیا اور اسی وجہ سے کہاجارہا ہےکہ مذاکرات کا ایک اور دور بھی متوقع ہے۔ حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا بجٹ کی منظوری کے بعد اسمبلی ختم کی جا سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ مذاکرات میں کب کیا ہوا ؟ متفرق درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ کو آگاہ کر دیا گیاہے۔درخواست میں عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت کیساتھ مذاکرات کے تین ادوار ہوئے، تحریک انصاف نے مذاکرات میں ہر ممکن حد تک لچک دکھائی۔ تحریک انصاف نے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد کی استدعا کی ہے۔درخواست میں عدالت کو بتایا گیا کہ تحریک انصاف نے 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور جولائی کے دوسرے ہفتے عام انتخابات کرانے کی تجویز دی، حکومت 30 جولائی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر بضد ہے، حکومت چاہتی ہے انتخابات اکتوبر میں ہوں۔
مذاکرات کے شرکا کاکہنا ہےکہ یہ مذاکرات بہت اچھے اور مثبت اندازمیںہوئے اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے کی باتوںکو سنااور بہت سی تجاویز کو مان بھی لیاگیا۔تاہم جس بات پر اتفاق نہ ہواوہ تھی الیکشن کی تاریخ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکاکہنا ہے کہ بڑے مثبت طریقے سے بات چیت ہوئی، دونوں سائیڈ پر اتفاق ہے، ایک ہی دن الیکشن سے بہتری ہو گی، دونوں فریقین نے تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں سائیڈ پر لچک دکھائی جا رہی ہے۔ دونوں فریقین کی اپنی اپنی تاریخ ہے، ابھی ہم الیکشن کی ایک تاریخ پر نہیں پہنچے ۔تاریخ پر ابھی اتفاق نہیں ہوا لیکن وہ بھی جلد ہو جائے گا۔
یوسف رضا گیلانی کاکہنا ہےکہ دونوں طرف سے مثبت پیش رفت ہوئی ۔پی ٹی آئی کی طرف سے شاہ محمود قریشی کاکہنا ہے کہ 19 تاریخ کو سپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ سیاسی جماعتیں گفتگو کریں، سپریم کورٹ کی مثبت سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ ہم نے پی ڈی ایم الائنس کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا، جے یو آئی (ف) کےعلاوہ تمام جماعتیں مذاکرات پر آمادہ تھیں۔ ہم نے بحیثیت پارٹی کوشش کی اتفاق رائے کی طرف آگے بڑھیں۔اتفاق ہوا کہ مذاکراتی عمل کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پی ڈی ایم چاہتی ہے ایک ہی روز ملک میں الیکشن ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی نے الیکشن سمیت 8 نکاتی تجاویز کا ڈرافٹ حکومتی اتحاد کے حوالے کیا ہے، پی ٹی آئی نے عیدالاضحیٰ اور محرم کے درمیان کے ایام میں انتخابات کرانےکی تجویز دی ہے۔پی ٹی آئی نے تجویز دی ہے کہ اگست کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے الیکشن کمیشن نے درخواست دائرکی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی درخواست میں الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنے چار اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔کمیشن نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چار اپریل کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے میں تاریخ دینے کے معاملے پر نظرثانی کرے۔الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 254 کا استعمال مدت معیاد گزرنے سے پہلے بھی کیا جاسکتا ہے۔درخواست میں حاجی سیف اللہ کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 254 کو قبل از وقت استعمال کیا۔نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمی نے الیکشن کو چار ماہ آگے بڑھانے کی اجازت دی تھی۔
انتخابات اور مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا فیصلہ آنے والے وقت میںہی ہوگا۔ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ بھی آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا۔تاہم یہ تو واضح ہے کہ آئینی اور سیاسی بحران ہے اور سیاسی ماحول میں بھی الیکشن کے حوالے سے خاصی گرما گرمی ہے۔کیا مذاکرات کا اگلا رائونڈ ہوگایا معاملہ عدالت ہی حل کرے گی۔ اس کاتعین آنے والاوقت ہی کرے گا۔
No comments:
Post a Comment