نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

’’یہ نیند کا ہجربے فضول‘‘


’’یہ نیند کا ہجربے فضول‘‘



رمضان گزر چکا کب کا 

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی 
  
   ماہِ صیام  میں روز و شب کی ترتیب ہی الگ ہوجاتی ہے۔ ابھی ڈھنگ سے آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ سحری کی گھنٹی بج اٹھی ! اب تو آپکو اٹھتے ہی بنے گی۔ اگر ہاتھ بڑھا کر الارم بند کر ہی دیا ہے تو اڑوس پڑوس کی بیسیوں  مساجد کے سینکڑوں سپیکروں کے پیچھے  جاگ جانے والے اتنے ہی سینکڑے بزرگ ہم سوتے رہنے کی کوشش کرنے والے کم دین و کم ہمت مومنوں کو جگا رکھنے کی سعی بے تکان کو لا حاصل نہیں رہنے دیتے۔ 
سو ئی سوئی آنکھوں سے اٹھے ، کئی چلّو پانی کے بھر کر ان میں آنکھیں ڈبوئیں تو آنکھ کھلی۔ سحری ہوئی، گرتے پڑتے نماز سے فارغ ہوئےاور خود کو آغوش بستر میں پہنچایا ، اور نیند کے گھوڑے دوڑنے لگے ۔ ابھی سرپٹ نہ ہوئے تھے کہ کسی نے لگامیں کھینچ لیں۔ اب یہ دفتر جانے کے وقت کی  بہت ہی بے وقت منادی تھی مگر حکم حاکم کی سرتابی کی مجال کسے ! 
سو گرتے پڑتے یعنی مرتے کیا نہ کرتے دفتر پہنچے۔ سوتے جاگتے کچھ امور بگاڑے ، کچھ سنوارے ، چھٹی ہوئی تو ادھ کھلی آنکھوں سے گاڑی اڑاتے اللہ کے سہارے گھر وارد ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیدھے بستر پر لینڈ ہوئے۔ اب جو اٹھایا گیا تو اوسان بحال ہونے پر بہت فرحت بخش احساس ہوا کہ ابھی دس منٹ میں وقتِ افطار ہوا چاہتا ہے۔ اب اس  چار گھنٹے کی مکمل عدم مداخلت والی نید نے رات ایک بجے تک تو جگائے رکھا۔ ایک بجے آنکھ جو نیند سے بوجھل ہوئی تو پھر کل والا چکر  !!
رمضان گئے آج پانچواں دن ہے مگر میں الوؤں کے قبیل سے ہوگیا ہوں جو میں نے سوچا تو یہ پایا۔ 
رات کا تیسرا پہر لگنے کو ہے مگر آنکھ لگنے کا نام نہیں لے رہی اور چھہ بجے کا الارم لگا رکھا ہے !!!
کسی کے ہجر میں  جاگتے تو کچھ حاصل بھی ہوتا 
’’یہ نیند کا ہجربے فضول‘‘



نوٹ:یہ کالم نگار/بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


تعارف :کالم نگار/بلاگر عثمان امجد بھٹی ممتاز ماہر تعلیم ہیں ،حلقہ ادب میںتـحاریر اورادبی ذوق کی وجہ سے خاصے معروف ہیں۔تعلیم اور ادب سے لگائو کے علاوہ سیرو سیاحت کے خاصے شوقین ہیں اور وقت نکال کر سیاحت کا شوق پورا کرتے رہتے ہیں۔ذاتی مصروفیات سے وقت نکال کرطبع کو رواں کرتے رہتے ہیں۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts