دوہزار بائیس معیشت پر گراں گزرا
معاشی ابتری اوردہشت گردی کی پھر سے سراٹھاتی لہرملکی سلامتی کے لیے عفریت بن چکی ہے۔وطن عزیز کومشرقی سرحدکے ساتھ مغربی سرحدسے بھی چیلنجزدرپیش ہیں اس کے ساتھ ساتھ سفارتی، سیاسی اورتجارتی شعبوں سے بھی کچھ اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سال 2022 معاشی لحاظ سے ایک سخت سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال پاکستان کی معیشت کو متعدد مسائل کا سامنا رہا۔ بیرونی ادائیگیوں کے مسائل پاکستان کے لیے شدید تر ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے زرِمبادلہ کا حصول کو مشکل کردیا ہے۔
آج حکومت کی سب سے بڑی ناقدپی ٹی آئی2018کے الیکشن کے بعد خود بھی چارسال حکومت میں رہی توملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیے مگرمعاشی صورتحال کو اپنے سے پہلی حکومت والے ٹریک پرنہ لاسکی۔تحریک انصاف کو وہ آئیڈیل حالات ملے جو ملکی تاریخ میں پہلے کسی حکومت کونہیں ملے تھے۔ تمام اداروں،طاقت کے سرچشموں کادھاراپی ٹی آئی کے ساتھ تھا۔ اس عرصے میں ساری توجہ احتساب کے نام پر سیا سی مخالفین کو کچلنے پررکھی گئی۔
کرپشن کی جوتعریف ہوئی وہ صرف نوازشریف،مریم نواز،شہبازشریف ان کی فیملی ، آصف علی زرداری اینڈفیملی پرلاگو کی گئی۔ سیاسی مخالفین کواحتساب کے نام پر اندر کرکے صاحبین اقتدارواختیارکووہ چھوٹ دی گئی کہ الامان والحفیظ۔ ذمہ داروں کو جب احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں کااحساس ہونے لگا توحالات بدلے۔بنائے گئے کیسز ثابت کرنا ناممکن ہونے لگے اورصرف مخالفین کو چورقراردینے کے نعرے صرف پراپیگنڈہ ثابت ہونے لگے اور گڈ گورننس کے دعوے ہوابھرے غبارے ثابت ہوناشروع ہوئے تو عمران خان کے لیے آسانیاں پیداکرنے کاسلسلہ بھی کمزورپڑنے لگا۔ پھرتبدیل باہرنہیں اندرسے ہی آئی اور پی ٹی آئی کومضبوط کرنے کے لیے اس میں شامل کرائے گئے کرداروں نےبھی بھنویں چڑھالیں۔
مارچ اپریل2022میں قومی اسمبلی کے اندرصورتحال بدلی اور عمران خان کے اپنوں کا موڈ بھی بدل گیا۔ تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے حامیوں کی تعداد کم نکلی اورشہبازشریف پی ڈی ایم کی جانب سےآئینی عمل کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ وہ وزیراعظم بن توگئے مگرپی ٹی آئی کی معاشی ترجیحات اور اقدامات ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئے۔ اوپرسے عمران خان کوبھی یہ جمہوری عمل پسندنہ آیا اور انہوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ پی ڈی ایم حکومت کے لیے قدم اٹھانابھی مشکل ہوگیا۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو رقم دینے کے لیے پہلے ہی خوفناک شرائط رکھی ہوئی تھیں جومنظرعام پرنہ لائی گئیں۔ شہبازحکومت نے جب مالیاتی اداروں سے رجوع کیا توپتہ چل کہ پاکستان کاخون رواں رکھنے والی رگیں پہلے ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔ خاص طورپر آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے سوچ پر بھی اتنی خطرناک شرائط رکھ دیں کہ پہلے سے گروی پاکستان کی حس وحرکت بھی مشکل ہوجائے۔
اتحادی حکومت مسلسل کوششوں کے باوجود ملکی برآمدات میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔جب برآمدات اوردرآمدات میں توازن نہیں ہوتاتوتجارتی خسارہ بڑھ جاتاہے، تجارتی اعدادوشمار کے مطابق جولائی2022 سے نومبرتک تجارتی خسارہ 20 ارب 59 کروڑ ڈالرزتک پہنچ گیا۔ادارہ شماریات کا بتانا ہے کہ اسی دوران درآمدات کا حجم 32 ارب 93 کروڑ ڈالرز رہا جب کہ 5 ماہ میں گزشتہ برس کے مقابلے برآمدات میں 26.68 فیصد اضافہ ہوا۔ماہرین معاشیات کے مطابق درآمدات کی مد میں رقم کی ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوتی ہے مگر سمگلنگ اورذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ڈالرزمارکیٹ سے غائب ہورہا ہے ڈالروں کی افغانستان سمگلنگ کا معاملہ اس قدرگھمبیرشکل اختیارکرگیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے اور ڈالر کی شرح تبادلہ سنبھلنے میں نہیں آرہی۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود رہتا تو الگ بات تھی۔زرعی اجناس کوغیر قانونی طریقے سے سرحد پار لے جایا جارہا ہے۔ یوں پاکستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگی گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے اور اس سے امپورٹ بل میں اضافہ ہورہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ پاکستان معاشی و سیاسی حوالے سے بظاہر ایک طویل بحران میں داخل ہو گیا ہے، ملک میں انتخابات ہوبھی جائیں تو معاشی و سیاسی بحران ٹلنے والا نہیں، مخدوش حالات اسی طرح پنپتے رہے تو صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور دشمن قوتیں صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
اس مشکل ترین صورتحال میں سیاستدان ابھی تک باہم دست وگریبان ہیں۔ سیاسی ابتری کافائداٹھاتے ہوئے دہشت گردی نے بھی سراٹھالیاہے۔سرمایہ کاروں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی سطح پر معیشت کے حوالے سے کی جانے والی بیان بازی اور ملک کے دیوالیہ(ڈیفالٹ) ہونے سے متعلق بیانات ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مجروح کرررہے ہیں۔ دوست ممالک معاشی ابتری سے بچنے کے لیے تعاون کرنے کوتیارہیں مگروہ سیاسی خلفشارسے پریشان ہیں۔ سیاسی اورمعاشرتی صورتحال خراب ہوتوایسے میں معیشت کیسے بہترہوسکتی ہے؟
نوٹ : یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
تعارف: محمدفاروق سپرا سینئر جرنلسٹ ہیں،وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معتبر نام ہیں۔روزنامہ وفاق، روزنامہ خبریں، روزنامہ صحافت،دوپہر، روزنامہ انصاف، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ وقت،وقت نیوزٹی وی، سٹارایشیا،پنجاب ٹی وی ،دنیا نیوز،ایکسپریس نیوز میں مختلف پوزیشنزپر کام کرچکے ہیں اور آج کل92نیوز میں کام کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment