لاہورپریس کلب کے انتخابات قومی جمہوریت کے لیےمثبت مثال

تاریخی اور تعلیمی اہمیت کاحامل ضلع منڈی بہاؤالدین کا قصبہ رسول جو ہیڈرسول کے نام سے مشہورہےاس لیے برسبیل تذکرہ ہے کہ وہاں کبھی یاشایداب بھی لفظ بازگشت کی عملی شکل موجود ہے۔ زمانہ طالب علمی میں وہاں کرکٹ میچ کھیلنے گئے تووہاں کاکرکٹ گراؤنڈگہرائی میں اور پتھریلی چٹانوں کے درمیان واقع تھا۔ ہماری ٹیم کا وہاں میچ کھیلنے کاپہلااورحیران کن تجربہ تھا۔ جب بال بیٹ سے ٹکراتی تو دوبا ر زوردارآواز گونجتی ۔ ایک باربال بیٹ سے ٹکراتی توآوازآتی اور چندساعتوں بعدپھراس کی بازگشت سنائی دیتی۔تذکرہ ہے جمہوریت اور ووٹ کی بازگشت کا جس کی بہترین مثال لاہورپریس کلب کے انتخابات ہیں جہاں ہرسال نئی باڈی کے انتخاب کاموقع لوٹ آتاہے اورمنتخب باڈی کا ووٹ کے ذریعے ہی احتساب ہوتاہے۔یہاں مخالفت کابدلہ ووٹ نہ دے کر بہترین انداز میں کیا جاسکتاہے۔
ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے
لاہورپریس کلب کے الیکشن 2022میں پائنیئرز گروپ نے حسب توقع کلین سویپ کرلیا۔ جرنلسٹ کمیونٹی نے اعظم چودھری صاحب اور ان کی کابینہ کو صحافی کالونی ایف بلاک کے الاٹمنٹ لیٹرز،بی بلاک کے کچھ متاثرین کوقرعہ اندازی کے ذریعے صاف شفاف پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور سب سے بڑھ کر فیز ٹوکے دوستوں کے لیے خوشخبری کو ذہن میں رکھا۔ووٹنگ ہوئی تو اعظم چودھری صاحب کے پینل کو ریوارڈ بھی مل گیا۔ ان کا سیکرٹری کے لیے کوئی امیدوارنہیں تھا اس لیے ایک عرصے بعدپروگریسوگروپ کی جانب سے سابق سیکرٹری عبدالمجیدساجد اور جرنلسٹ کے ذوالفقار علی مہتو ون ٹوون مقابل تھے۔ اس مقابلے کے مردِ میدان عبدالمجید ساجد ٹھہرے۔ ووٹرز نے انہیں ذوالفقارمہتوصاحب پرترجیح دی اور نظر انتخاب انہیں پرٹکادی۔
خزانچی کے لیے دویارباش شخصیات مدمقابل تھیں۔پائنیئرز کے حافظ فیض احمد اور جرنلسٹ کے قمرزمان بھٹی کامقابلہ ووٹ ٹوووٹ اور کسی بھی پیش گوئی اوراندازے سے برترنکلا۔ تاہم حافظ فیض صاحب پر59زیادہ دوستوں نے اعتماد کیا۔ حافظ فیض نے895جبکہ قمرزمان بھٹی نے836ووٹ حاصل کیے۔جوائنٹ سیکرٹری کے لیے بھی مقابلہ خوب رہا۔ سینئرصحافی رانااکرام جو بہت سوشل اور یارباش شخصیت ہیں ہارے ہوئے لشکر کےکمانڈر کے طورپرسامنے آئے۔ رانااکرام اگرچہ جیت نہ سکے مگر 637ووٹ حاصل کرکے اپنےصحیح امیدوارہونے کا حق اداکردیا۔ ان کے مدمقابل حسن تیمورجھکڑ نے668ووٹ حاصل کرکے 31ووٹوں کی برتری حاصل کی۔ حسن تیمورجھکڑ ایک بڑی صحافی شخصیت اقبال جھکڑ کے صاحبزادے ہیں اورخود بھی اپنے مدمقابل رانااکرام صاحب کی طرح انتہائی اعلی تعلیم یافتہ اورخوش اخلاق شخصیت کے مالک ہیں۔
یہاں اس الیکشن کا تذکرہ بھی ضروری ہے جب صحافی کالونی کی بنیاد پڑی تھی۔ صحافیوں کو پلاٹ ملنے کاذکرہواتوہم ایک دوسرے سے پوچھاکرتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتاہے؟مگر اس وقت کے صدرارشدانصاری نے صفرفیصدامکانات کو ہزارفیصد تک یقینی بنایا۔ ہم اس وقت کلب کے923ارکان تھے۔ چونکہ سب کامشترکہ مفاد تھااور اس وقت ارشدانصاری ڈیلیورکرنے کی بھرپورپوزیشن میں تھے توان کا دور دورتک نہ کوئی مقابل تھا اورنہ کوئی مقابلہ کرناچاہتاتھا۔اہتمام حجت کے لیے پروگریسو کی جانب سے عبدالمجیدساجدصاحب کومیدان میں اتاراگیامگررزلٹ حسبِ توقع آیا اور 95فیصدووٹ ارشدانصاری کوپڑے ۔ ارشد انصاری نے پھرڈیلیورکرکے بھی دکھایا اور ڈیسک پربیٹھے غریب صحافی بھی اپنی چھت کے مالک بنے۔آج اعظم چودھری نے بھی اُس کامیابی کی بازگشت ممکن بنائی اورآج پھر کمیونٹی نے ان کوسرخروکیا۔ فیزٹوجوکبھی نعرہ تھاآج حکومتی سطح کااعلان بن چکاہے اور نئے صحافیوں کو بھی پلاٹ ملنے کے امکانات پیداہوچکے ہیں۔
یہاں جرنلسٹ کمیونٹی کے ووٹ پریقین اور جمہوریت پسندی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کئی سال بعد ایسے الیکشن آئے جب کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہ آیا۔ اتفاق رائے سے الیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی ۔پھراس کمیٹی کو سب گروپوں نے بھرپورمینڈیٹ اور اختیاردیا۔ کمیٹی نے بھی اپنا مینڈیٹ بھرپوراورشفاف انداز میں استعمال کیا۔ اصل شناختی کارڈز نہ لانے والوں کو ووٹ سے روک کر بلاامتیاز واپس بھجوادیاگیا۔ ووٹرز نے بھی مائنڈنہ کیابلکہ اپنے اصل شناختی کارڈز لائے اور پھراپناحق رائے دہی استعمال کیا۔ جمہوریت کے حسن کو مزیدچارچاندتب لگے جب شناختی کارڈ نہ ہونے پراعتراض کو بخوشی قبول کیاگیا۔
ہرصحافی ایک انسان ہوتاہے وہ خوبیوں اورخامیوں کامجموعہ بھی ہے۔ صحافتی برادری میں سوسجن سودشمن بھی ہوسکتے ہیں جنہیں کیریئرمیں فیس کرناہوتاہے۔ لاہورپریس کلب کے ممبرز کے لیے ہرسال کاالیکشن مخالفت اور مخاصمت نکالنے کا موقع ہوتا ہے۔
مخالفت کے اظہار
کے لیے ناپسندیدہ شخص کے ووٹوں کی راہ میں جمہوری رکاوٹ ڈال کر ترجیحات کااظہارکیاجاسکتاہے۔ اپنی پسندناپسند رائے سے راقم بھی خود کو بری الذمہ نہیں سمجھتا۔ اپنی ناپسندیدگی کااظہار ووٹ کے ذریعے کیا ۔ ہربال ووٹ کے ذریعے اظہاررائے کی آزادی کاہرسال موقع ملتاہے۔جمہوری حق کے ووٹ کے ذریعے کم ازکم ذاتی رائے کااظہارکیاجاسکتاہے تووطن عزیزکی تقدیرکے فیصلے کرنے کے مینڈیٹ کےتعین کے لیےووٹ سے فیصلے روایت بن جائیں تواحتساب کااس سے بہترشایدہی کوئی طریقہ ہو۔ مجھے سابقہ وزیراعظم بے نظیربھٹو کے الفاظ کی بازگشت باربارسنائی دیتی ہے جوجمہوریت کابہترین انتقام قراردے گئی تھیں۔
نوٹ : یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
تعارف: محمدفاروق سپرا سینئر جرنلسٹ ہیں،وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معتبر نام ہیں۔روزنامہ وفاق، روزنامہ خبریں، روزنامہ صحافت،دوپہر، روزنامہ انصاف، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ وقت،وقت نیوزٹی وی، سٹارایشیا،پنجاب ٹی وی ،دنیا نیوز،ایکسپریس نیوز میں مختلف پوزیشنزپر کام کرچکے ہیں اور آج کل92نیوز میں کام کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment