لاہورسیاسی ملاقاتوں کامرکز۔۔۔۔۔کیا23 دسبر سے پہلے کوئی نیا سرپرائز سامنے آسکتا ہے؟
لاہور اس وقت سیاسی ملاقاتوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سیاسی پارہ ہائی ہے ۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کے پی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لئے23 دسمبر کی تاریخ دی ہوئی ہے۔ ا سکے بعد سے حکمران اتحاد میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف اتحادیوںکے ساتھ مل کر اسمبلیوں کی تحلیل کوبچانے کے لئے سرگرم ہیںاور ن لیگی رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیںکررہےہیں۔اس سلسلے میںشہباز شریف کی چودھری شجاعت سے ملاقات ہوئی ہے۔آئندہ48گھنٹے انتہائی اہم قرار دئے جارہے ہیں۔24 گھنٹے میں شہباز شریف کی شجاعت سے دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس طرح پنجاب کی سیاست میںایک بار پھر چودھری برادارن اہمیت اختیار کرگئے ہیں او ر خاص طور پر نظریں چودھری پرویز الٰہی کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ ـحکمران اتحاد اور عمران خان دونوں کے لئےچودھری پرویز الٰہی بہت زیادہ اہم ہیں۔
چودھری شجاعت نے پرویز الٰہی سے اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے بات کرنے کا عندیہ دیاتھا ۔وزیر اعظم میاںشہبا ز شریف آصف زرداری سے بھی رابطے میںہیں اور گیم چینجر آصف زرداری نے شہباز شریف کو ویٹ اینڈ سی کا کہا ہے۔ آصف زرداری نے بھی لاہور میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈروںسے ملاقات کی اور اسمبلیوں کی تحلیل کو روکنے کےلئےباقاعدہ مشاورت کی ہے۔چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ اگلے تین سے چار روز تک سیاسی رابطے اور ملاقاتیں جاری رہیں گے۔ پنجاب کے معاملے پر ٹینشن زیادہ بنی ہے لیکن جلد حل نکل آئے گا۔ان کاکہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عقلمند آدمی ہیں، انہیں کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
میاں شہباز شریف نے بھی پارٹی رہنمائوں کا خصوصی اجلاس طلب کرکے مشاورت کی تھی ۔ن لیگ کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیاگیا ہے کہ گورنر کے ذریعے وزیر اعلی پنجاب کو اعتماد کاووٹ لانے کاکہاجائے گا اوراس کے علاوہ مزید آپشن پربھی غور کیاجائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کےخلاف اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر کو باقاعدہ تحریری درخواست جمع کرانے کے آپشن پر اتفاق کیاگیاہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے مشیر سیاحت و کھیل عون چودھری کی ملاقات ہوئی تھی،اس ملاقات میں ملکی معاملات، پنجا ب کی سیاسی صورتحال اور محکمانہ امور پر بات چیت کی گئی۔عون چودھری نے جہانگیر ترین کا خصوصی پیغام وزیر اعظم شہباز شریف کو پہنچایاتھا۔ن لیگ کی قانونی ٹیم نے اعتماد کے ووٹ کی آپشن پر جانے کا مشورہ دیاہے۔اجلاس میں اعتماد کے ووٹ کے لیے گورنر پنجاب کو تحریری درخواست جمع کرانے کے آپشن پر اتفاق کیا گیا ہے۔ن لیگ نے اراکین پنجاب اسمبلی اور آزاد اراکین کو لاہور پہنچنے کی ہدایت کی ہے تاکہ مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کیاجائے۔ق لیگ سے بھی رابطوں کا ٹاسک چودھری شجاعت حسین کو دینے پر اتفاق ہوا ہے۔آصف زرداری نے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین سے رابطوں کا عندیہ دیا ۔
شہباز شریف نے عمران خان کے کیسز میں تیزی لانے کی ہدایت کی،حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار صدر مملکت عارف علوی سے باقاعدہ ملاقاتیںکرکے ان کو صورتحال اور تمام آپشنز کے بارے میں باقاعدہ آگاہ کررہے ہیں ۔صدر مملکت اسحاق ڈار کوجبکہ وزیر خزانہ نے عارف علوی کوحکومتی اتحادکے متعلق مسلسل بریف کررہے ہیں۔ اسحاق ڈار کاکہنا ہے اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو 90 روز کے اندر انتخابات ہو سکتے ہیں اور حکومت کا کام فنڈز جاری کرنا ہے انتخابات کرانا نہیں تاہم آئندہ انتخابات مردم شماری کے بعد ہی ہوں گے جس کے لیے حکومت فنڈز جاری کر چکی ہے۔ جب بھی الیکشن ہوں گے ہم تیار ہیں اور امید ہے کہ ہمیں الیکشن میں کامیابی ملے گی۔ چیف الیکشن کمشنر اپنا آئینی کردار ادا کریں گے اور انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان کرے گا تو ہم بھی تیار ہیں۔
پرویز الٰہی نے گذشتہ روز ایسا بیان دیاتھا جس سے یہ تاثر ہوا تھاکہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے درمیان واضح اختلاف ہے۔چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ جب عمران خان جنرل (ر)قمرجاوید باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے بہت برا لگا،ان کا کہنا تھاکہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے محسن ہیں، محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے، ان کے ہم پر بہت احسانات ہیں، احسان فراموشی نہ کی جائے۔ان کاکہنا تھاکہ جنرل(ر) باجوہ کے خلاف اب اگر بات کی گئی تو سب سے پہلےمیں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی، ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے مخالف نہیں ساتھی ہیں لیکن اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔
اس بیان کے بعد پنجاب کی صورتحال میںتبدیلی آئی ۔ تاہم مونس الٰہی نے عمران خان کو چودھری پرویز الٰہی کے موقف کی وضاحت کی اور کافی دیر تک ملاقات کی۔ اس کے بعد اب پی ٹی آئی نے ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے کمیٹی بنادی ہے۔ یہ کمیٹی باقاعدہ اجلاس کے بعد رپورٹ چیئرمین عمران خان کوپیش کرے گی اور یہ بتائے گی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کاکہنا ہے ق لیگ اور تحریک انصاف کا موقف الگ ہو سکتا ہے لیکن ق لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن میں اتریں گے۔انہوںنےپی ٹی آئی اراکین کو ہدایت دی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت ق لیگ کے ساتھ نہ الجھے، پاکستان تحریک انصاف اپنے بیانیے میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے اسمبلی تحلیل ہوئی تو نیا مینڈیٹ 5 سال کیلئے ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن ایک تاریخ پر کرانا آئینی تقاضہ نہیں، اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں پوری اسمبلی کا انتخاب ضمنی الیکشن نہیں ہوتا۔الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں استعفے منظور ہوئے تو ضمنی انتخاب ہو گا، اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو 90 روز میں الیکشن کرانے ہوں گے۔ 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضہ ہے۔
23 دسمبرکو اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں یا پھر کوئی نئی تاریخ منظر عام پرآئے گی۔اس کے لئےتو انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اگلے تین چار رو ز سیاسی ملاقاتوںکے حوالے سے بہت اہم ہیں اورجوڑ توڑ کے ماہرین نے بھی اسمبلیوں کی تحلیل کوروکنے کے ـحوالے سےکمر کس لی ہے۔بقول آصف علی زرداری کے’’ویٹ اینڈ سی‘‘ کی پالیسی کے بعد ہی کوئی نتیجہ سامنے آئے گا۔







No comments:
Post a Comment