میرانستعلیق دوست خلیل مغل
یادیں رہ جاتی ہیں،اپنا سٹیشن آنے پرزندگی کے سفرکے مسافر اپنے سٹیشن پراترجاتے ہیں۔ نیوزروم کی وہ فیملی یاد ہے
جس کے ارکان آج مختلف اخبارات اور نیوزچینلز میں ذمہ دارعہدوں پرفائز ہیں۔ اسی فیملی میں خلیل مغل کی زندگی کے سفرمیں اپناسٹیشن آنے پراترگئے۔1997-96میں روزنامہ خبریں کے نیوزروم کی فیملی کاذکرہے جس کےاس وقت سربراہ ایک نفیس اور انسان دوست شخصیت ایثاررانا صاحب تھے(اللہ تعالیٰ انہیں صحت موسیٰ عمر خضرعطافرمائے)۔ وہ نیوزایڈیٹرہی نہیں ہمارےبڑے بھائی اور مہربان دوست بھی ہیں۔ ان کی ٹیم میں شامل خلیل مغل جیسی نستعلیق شخصیت بھی تھی۔ اس وقت خلیل مغل کے سرکے بال اس کی وجاہت کودوچندکردیتے تھے۔ وہ ناز نخرے سےچلتا،ایک انداز سے اپنی نشت پربیٹھتا،اس کی نشست وبرخاست اورچال ڈھال میں احتیاط اور رکھ رکھاؤ نظرآتاتھا۔
1990کی دہائی کے اواخرمیں روزنامہ خبریں کی شفٹ ختم ہوتی تو انتہائی وجیہ ایثارراناصاحب نعرہ مستانہ بلندکرتے۔وہ حرف اس پربھی بھیجتے جوہمارامحسن،مربی بھی تھا مگرسخت گیراتناکہ اس کاسامناکرنا مجاہدہ کرنے سے کم نہ تھا۔ پھرکاپی پیسٹنگ کی نگرانی کرنے والے زاہدگوگی اپنے انداز میں کوئی چٹکلاچھوڑتے توان کے ساتھ عظیم نذیرصاحب،قاسم نواز لالی، ندیم جونیئرصاحب،ملک ظفر صاحب، عارف جٹ ،سٹی پرسجاوولی صاحب،قیصرضمیر،ابراہیم لکی صاحب اور راقم الحروف سمیت سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس ماحول کوگرماتے ۔
ہمارے کپتان ایثارراناصاحب کو ایک خواب گاہے گاہےآتا تھا کہ وہ مہربانی مربی ڈنڈا گھمارہا ہے۔اسی ٹیم میں سہیل ظفر صاحب،ثمرعباس زیدی صاحب(اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے)، نعیم اللہ صاحب،محمدعادل صاحب،سعیداخترصاحب اور دیگربہت سے دوست سے بھی تھے۔ اس وقت ہم سب بھرپورجسمانی توانائی،صحت اوروجاہت کے عروج پرتھے۔ مگرخلیل مغل اپنے رکھ رکھاؤمیں سب سے منفرد تھا۔
1990کی دہائی کے اواخرمیں روزنامہ خبریں کی شفٹ ختم ہوتی تو انتہائی وجیہ ایثارراناصاحب نعرہ مستانہ بلندکرتے۔وہ حرف اس پربھی بھیجتے جوہمارامحسن،مربی بھی تھا مگرسخت گیراتناکہ اس کاسامناکرنا مجاہدہ کرنے سے کم نہ تھا۔ پھرکاپی پیسٹنگ کی نگرانی کرنے والے زاہدگوگی اپنے انداز میں کوئی چٹکلاچھوڑتے توان کے ساتھ عظیم نذیرصاحب،قاسم نواز لالی، ندیم جونیئرصاحب،ملک ظفر صاحب، عارف جٹ ،سٹی پرسجاوولی صاحب،قیصرضمیر،ابراہیم لکی صاحب اور راقم الحروف سمیت سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس ماحول کوگرماتے ۔
ہمارے کپتان ایثارراناصاحب کو ایک خواب گاہے گاہےآتا تھا کہ وہ مہربانی مربی ڈنڈا گھمارہا ہے۔اسی ٹیم میں سہیل ظفر صاحب،ثمرعباس زیدی صاحب(اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے)، نعیم اللہ صاحب،محمدعادل صاحب،سعیداخترصاحب اور دیگربہت سے دوست سے بھی تھے۔ اس وقت ہم سب بھرپورجسمانی توانائی،صحت اوروجاہت کے عروج پرتھے۔ مگرخلیل مغل اپنے رکھ رکھاؤمیں سب سے منفرد تھا۔
سڑک پرایسے چلتاتھا جیسے تھوڑی سی بےاحتیاطی سے چلا توسڑک اذیت میں پڑجائے گی۔
شفٹ ختم ہونے کے بعدمزنگ چونگی چوک پر رات ڈھائی بجے کرکٹ کھیلتے اوریہ سلسلہ سورج طلوع ہونے تک جاری رہتا۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی لیفٹ ہینڈرخلیل مغل کااپنا ہی ساٹلش انداز تھا۔ ان کے کھیل میں جارحیت سے زیادہ سٹائل تھا۔ یہ سلسلہ دوتین سال تک چلا۔ پھراسی دہائی کے اواخرمیں ہم سب کے راستے جداہوئے۔ خوشنودعلی خان ضیاشاہدسے الگ ہوئے توراقم اس ٹیم کاحصہ بناجس نے خوشنودعلی خان کو جوائن کیا۔ پیشہ وارانہ زندہ کے ماہ وسال گزرتے رہے۔ حال ماضی اورماضی ماضی بعید بنتارہا۔ پھر روزنامہ دوپہر،روزنامہ انصاف، روز نامہ ایکسپریس ،روزنامہ وقت،وقت نیوز،پنجاب ٹی وی ،سٹارایشیا ٹی وی ،دنیا ٹی وی تک دربدرکی خاک چھانتے 2013میں ایکسپریس نیوزجوائن کیا تو وہاں خلیل مغل کی رفاقت ایک بارپھرمیسرآگئی۔ اب کی بارمعاملات کافی حدتک تبدیل ہوچکے تھے۔
خلیل مغل کی زلف ہائے گرہ گیرکاایریاچٹیل ہوچکاتھا۔اس کے ماتھے کاسائزآدھے سے زیادہ سرپرپیچھے تک جاچکاتھا۔ تاہم وہ اسی طرح ہنس مکھ تھاجیسے ایک دہائی پہلے ہواکرتاتھا،چہرے پرمتانت اور مسکراہٹ بھی ماضی کی طرح تھی۔ لیکن اب کی بار وہ بہت سے معاملات میں احتیاط برتنے لگ گیاتھا۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے میں اس نے اپنی ترجیحات کااپنے انداز میں تعین کرلیاتھا۔
ایکسپریس نیوزمیں خلیل مغل کو سعیدچودھری صاحب،ندیم زعیم،سعیدزمان نیازی،اویس حمید،دیرینہ رفیق زاہد گوگی، ستارترین،عمران فاروق،زاہدمقصودصاحب،سیدعارف معین بلے صاحب،آصف چودھری ،شبیرمغل صاحب اورنیوزروم کے باقی دوستوں سے بہت لگاؤتھا۔ ناچیز کو چارسال تک دوبارہ ان کی رفاقت میسررہی مگر پھررزق کی تلاش میں اگلی منزل کاراہی ہوناپڑا۔مگرآج بھی اس بات پریقین ہے کہ وہ دوستوں کے لیے خلیل مغل نہیں خلیل جبران تھا۔ اپنے نظریات سوشل میڈیا پر بھی شیئرکیا کرتاتھا۔
صحافی کالونی کے بی بلاک میں متنازع جگہ پرپلاٹ آنے کی خلیل اسے فکر تھی۔ایسے میں سرچکرانے سے وہ بائیک چلانے سے بھی قاصرہوگیاتھا اوپرسے بی بلاک کی واضح سمت تعین نہ ہونے سے اس کی فکرمندی میں اضافہ ہوگیاتھا۔ مجھ سمیت بہت سے دوست اسے گھرسے دفتراوردفترسے گھرتک لے جانے کی سہولت کاری کرتے رہے۔2003سے بی بلاک کامسئلہ جوں کاتوں تھا۔ معلوم ہواہے کہ2022میں چنددن قبل متبادل پلاٹس کے لیے قرعہ انداز ی میں نام نہ آنے پروہ بھی دکھی ہوا۔ دوست احباب کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی بات اس نے دل پرلے لی۔ کارڈیک اریسٹ ہوا اور خلیل مغل راہی ہوگیا۔ سننے میں آیاہے اس کاجائزپلاٹ اس کی فیملی کوملے گا مگرکیاہی اچھاہوتاکہ اپنے زندگی میں ہی وہ ملکیتی لیٹراپنے ہاتھوں سے وصول کرتا۔قل خوانی پر خلیل مغل کے صاحبزادے نبیل سے ملاقات ہوئی۔میں اوروسیم فاروق شاہدنے نبیل کو تسلی دی اوردعائیں دیں کہ اللہ تعالی اسے والدکے رہ جانے والے ٹاسک مکمل کرسکے۔ وہ مضبوط قدموں پرکھڑازندگی کے چیلنجز کوقبول کرنے کوتیارتھا۔اللہ تعالی ٰ اسے ہمت اور استقامت عطافرمائے۔
شفٹ ختم ہونے کے بعدمزنگ چونگی چوک پر رات ڈھائی بجے کرکٹ کھیلتے اوریہ سلسلہ سورج طلوع ہونے تک جاری رہتا۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی لیفٹ ہینڈرخلیل مغل کااپنا ہی ساٹلش انداز تھا۔ ان کے کھیل میں جارحیت سے زیادہ سٹائل تھا۔ یہ سلسلہ دوتین سال تک چلا۔ پھراسی دہائی کے اواخرمیں ہم سب کے راستے جداہوئے۔ خوشنودعلی خان ضیاشاہدسے الگ ہوئے توراقم اس ٹیم کاحصہ بناجس نے خوشنودعلی خان کو جوائن کیا۔ پیشہ وارانہ زندہ کے ماہ وسال گزرتے رہے۔ حال ماضی اورماضی ماضی بعید بنتارہا۔ پھر روزنامہ دوپہر،روزنامہ انصاف، روز نامہ ایکسپریس ،روزنامہ وقت،وقت نیوز،پنجاب ٹی وی ،سٹارایشیا ٹی وی ،دنیا ٹی وی تک دربدرکی خاک چھانتے 2013میں ایکسپریس نیوزجوائن کیا تو وہاں خلیل مغل کی رفاقت ایک بارپھرمیسرآگئی۔ اب کی بارمعاملات کافی حدتک تبدیل ہوچکے تھے۔
خلیل مغل کی زلف ہائے گرہ گیرکاایریاچٹیل ہوچکاتھا۔اس کے ماتھے کاسائزآدھے سے زیادہ سرپرپیچھے تک جاچکاتھا۔ تاہم وہ اسی طرح ہنس مکھ تھاجیسے ایک دہائی پہلے ہواکرتاتھا،چہرے پرمتانت اور مسکراہٹ بھی ماضی کی طرح تھی۔ لیکن اب کی بار وہ بہت سے معاملات میں احتیاط برتنے لگ گیاتھا۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے میں اس نے اپنی ترجیحات کااپنے انداز میں تعین کرلیاتھا۔
ایکسپریس نیوزمیں خلیل مغل کو سعیدچودھری صاحب،ندیم زعیم،سعیدزمان نیازی،اویس حمید،دیرینہ رفیق زاہد گوگی، ستارترین،عمران فاروق،زاہدمقصودصاحب،سیدعارف معین بلے صاحب،آصف چودھری ،شبیرمغل صاحب اورنیوزروم کے باقی دوستوں سے بہت لگاؤتھا۔ ناچیز کو چارسال تک دوبارہ ان کی رفاقت میسررہی مگر پھررزق کی تلاش میں اگلی منزل کاراہی ہوناپڑا۔مگرآج بھی اس بات پریقین ہے کہ وہ دوستوں کے لیے خلیل مغل نہیں خلیل جبران تھا۔ اپنے نظریات سوشل میڈیا پر بھی شیئرکیا کرتاتھا۔
صحافی کالونی کے بی بلاک میں متنازع جگہ پرپلاٹ آنے کی خلیل اسے فکر تھی۔ایسے میں سرچکرانے سے وہ بائیک چلانے سے بھی قاصرہوگیاتھا اوپرسے بی بلاک کی واضح سمت تعین نہ ہونے سے اس کی فکرمندی میں اضافہ ہوگیاتھا۔ مجھ سمیت بہت سے دوست اسے گھرسے دفتراوردفترسے گھرتک لے جانے کی سہولت کاری کرتے رہے۔2003سے بی بلاک کامسئلہ جوں کاتوں تھا۔ معلوم ہواہے کہ2022میں چنددن قبل متبادل پلاٹس کے لیے قرعہ انداز ی میں نام نہ آنے پروہ بھی دکھی ہوا۔ دوست احباب کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی بات اس نے دل پرلے لی۔ کارڈیک اریسٹ ہوا اور خلیل مغل راہی ہوگیا۔ سننے میں آیاہے اس کاجائزپلاٹ اس کی فیملی کوملے گا مگرکیاہی اچھاہوتاکہ اپنے زندگی میں ہی وہ ملکیتی لیٹراپنے ہاتھوں سے وصول کرتا۔قل خوانی پر خلیل مغل کے صاحبزادے نبیل سے ملاقات ہوئی۔میں اوروسیم فاروق شاہدنے نبیل کو تسلی دی اوردعائیں دیں کہ اللہ تعالی اسے والدکے رہ جانے والے ٹاسک مکمل کرسکے۔ وہ مضبوط قدموں پرکھڑازندگی کے چیلنجز کوقبول کرنے کوتیارتھا۔اللہ تعالی ٰ اسے ہمت اور استقامت عطافرمائے۔








No comments:
Post a Comment