’’اسمبلیوں کی تحلیل،عدم اعتماد یا گورنر راج ۔۔۔؟۔۔۔۔سفارشات تیار۔۔۔کس کس کوکیا ٹاسک ملا؟
صوبائی اسمبلیوں کی تـحلیل، عدم اعتماد یاپھر گورنر راج۔۔۔اس وقت کے پی اور خاص طور پر پنجاب کی سیاست خاصی گرم ہوئی ہے ۔عمران خان کے اسمبلیوں سے نکلنے یعنی اسمبلیاں چھوڑنے کے بیان پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی سر جوڑ لئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر سفارشات تیار کر لیں گئیں ہیں اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس پر مشاورت ہوگی اور خاص طور پر ارکان اسمبلی سے اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر رائے لی جائے گی ۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی خوب سرگرم ہے ۔وفاق اور پنجاب دونوں جگہ پر پارٹی کے قائدین کی مشاورت جاری ہے،پی ڈی ایم دونوں صوبائی اسمبلیاں بچانے کے لئے ہر آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے۔پی پی پی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے پنجاب اور کے پی میں عدم اعتماد لائیں گے ان کے پاس کے پی میں سیٹیں موجود ہیں لیکن تھوڑے دوست گمراہ ہیں انہیں واپس لانا ہے۔آصف زرداری نے کہا دیکھتا ہوں وہ کتنے ایم پی ایز لاتے ہیں خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیاں اگر ٹوٹیں اور انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی بھی الیکشن میں حصہ لے گی۔پہلے انتخابات ہمارے حق میں ہیں نہ جمہوریت کے حق میں ہے، اگر وہ اسمبلیاں نہیں توڑیں گے تو ہم اپوزیشن کرتے رہیں گے۔
وفاق میں حکمران جماعت کا موقف ہے کہ کوشش کریں گے کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں۔ملک کے سیاسی منظر نامے پر یہ بیان بازی اور پارلیمانی و سیاسی ہلچل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد شروع ہوئی، اور اب ایک بار پھر جوڑ توڑ، میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔سب سے زیادہ پنجاب میں حکومت ختم ہونے، تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے یا گورنر راج نافذ ہونے کے امکانات پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری کاکہنا ہے کہ اگلے ہفتے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیں گے، 20 مارچ سے قبل ہم نے کے پی کے اور پنجاب میں الیکشن کروانے ہیں۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے، پہلے خود کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی اسمبلیاں توڑیں گے، جب ہم نے اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کی کیسٹ ہی بدل گئی ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ سنا ہے 20 دسمبر سے پی ٹی آئی ارکانِ اسمبلی استعفے دیں گے، اگر فیصلہ کر لیا ہے تو 20 دسمبر تک انتظار کیوں کر رہے ہیں؟اسمبلیوں کی تحلیل یا استعفوں سے متعلق پی ٹی آئی کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کر لیں ہیں۔ پارٹی وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیاہے جس میں کمیٹی کے ارکان کی جانب سے 20 دسمبر تک اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان نے فوری اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ارکان کی آراء کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل ایسے وقت کی جائے جب وفاقی اور دیگر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ سکے دوسری جانب دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ اس وقت حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں روپے مالیت کی ٹنڈرز ہوچکے ہیں اور متعدد حکومتی منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔
اس معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں رتی بھر بھی تاخیر نہیں ہوگی۔ پنجاب اسمبلی عمران خان کی امانت ہے اور یہ امانت انہیں دے دی ہے۔ عمران خان کے ہر فیصلے کا ساتھ دیں گے، ہم جس کے ساتھ چلتے ہیں، اس کا پورا ساتھ دیتے ہیں، ہم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کاکہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو تو گورنر راج بھی نہیں لگ سکتا، اپوزیشن کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ بات کرنے سے قبل اسمبلی کے رولز آف بزنس کا مطالعہ کر لیا کریں۔ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے کا شوق پورا کرلیں، پہلے کی طرح پھر ناکامی ہوگی جبکہ پنجاب میں اپوزیشن کو پہلے بھی مار پڑی اور آئندہ بھی مار پڑے گی، اپوزیشن جاگتے میں خواب دیکھ رہی ہے جبکہ یہ تحریک عدم اعتماد کا شوشہ تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن ان کے پاس ممبر ہی پورے نہیں۔ سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی کاکہنا ہے کہ عمران خان جب چاہیں گے پنجاب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ اگرپی ٹی آئی پنجاب میں اسمبلی ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو سیاسی صورت حال کیا ہو گی؟ہر دو صورتوں میں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے گا۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام کی ہے جو کسی صورت نظر نہیں آرہی اور یہ بات سب کے لیے نقصان دہ ہے۔اصل سوال ہے کہ حکومت گرائے جانے کے بعد کیا مسلم لیگ ن حکومت بنا پائے گی تو اس کا جواب ہے کہ نہیں اور وجہ ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ جس میں پارٹی قیادت کے بغیر دیا جانے والا ووٹ تصور نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ گیم کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
اسمبلیاں تحلیل کرنے کے معاملے پر پی ٹی آئی کی طرف سے آئندہ 2 ہفتے انتہائی اہم قرار دیے گئے ہیں اور عمران خان نے قانونی ٹیم کو ٹاسک سونپ دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے سیاسی محاذ کے ساتھ اس حوالے سے قانونی محاذ پر بھی تیاری شروع کردی ہے ۔
خیال رہے ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 186 ارکان پورے کرنا ہوں گے۔ ن لیگ کے 18 ارکان پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے ، ن لیگ نے سپیکر کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ رجوع کیا ہے۔ رولز آف پروسیجر کے تحت تحریک عدم اعتماد کے لئے 18 ارکان کردار ادا نہیں کرسکتے، تحریک عدم اعتماد تاحال پیش نہ ہونے میں رکاوٹ معطل ارکان ہیں۔
حکمران اتحاد دونوں صوبوں میں حکومت حاصل کرنے کی بجائے انتخابی اصلاحات کر کےاور معاشی صورتحال میں بہتری کے بعد الیکشن کرانے کے فیصلہ پر قائم ہے لیکن جب کسی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد آجائے، گورنر کی رپورٹ پر صدر پاکستان گورنر راج نافذ کر دے تو گورنر راج کے دوران چیف منسٹر کے اختیارات معطل ہو جاتے ہیں۔پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل یا استعفوں کے اعلان کے بعد آئینی و قانونی صورتحال پر حکومتی اتحادی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور مختلف سیاسی و آئینی آپشنز پر غور جاری ہے۔دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں اوربتایاجارہا ہےکہ الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں خصوصی فیچرز پر مبنی بیلٹ پیپرز استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ واٹر مارک بیلٹ پیپرز کا بھی استعمال کیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment