نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

گورنر راج یا ان ہائوس تبدیلی؟۔۔۔پنجاب اسمبلی ٹوٹے گی یاچلے گی؟

 گورنر راج یا ان ہائوس تبدیلی؟۔۔۔پنجاب اسمبلی ٹوٹے گی یاچلے گی؟





پنجاب کی سیاسی صورتحال اس وقت خاصی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔پنجاب اسمبلی ٹوٹے گی یاچلے گی؟،ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کی باتیں کی جارہی ہیں۔کیاسیاسی جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہونے جارہا ہے؟۔ گورنر راج کے بعد اب ان ہائوس تبدیلی کی باتیں کی جارہی ہیں۔

عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں اپنے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے تمام صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد کے بیانات میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی تاکہ وفاقی حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کیا جا سکے۔اتحادی حکومت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کے بیان کے بعد سے مشاورت کررہی ہے۔ اتحادی حکومت اسمبلیاں بچانے پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل کرنےکے درپے ہے۔ اسی وجہ سے ن لیگی کے قائدین نے آصف زرداری سے بھی رابطہ کیا تھااوریہ ذمہ داری ان کوسونپ دی تھی۔ آصف زرداری نے گورنر راج کی بجائے ان ہائوس تبدیلی کی آپشن کو بہتر قرار دیا ہے۔وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پہلےصوبائی  اسمبلیوںکو دسمبر میں ہی تحلیل کرنے کا بیان دیتے رہے، تاہم وہ اتحادی حکومت کومشروط مذاکرات کی دعوت دے رہےہیں۔پی ٹی آئی کے حلقوںکا کہنا ہےکہ عمران خان حکومت کومذاکرات کی دعوت کا الٹی میٹم دے رہے ہیں

 اتحادی جماعتوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ پنجاب میں ایک مرتبہ پھر ان ہاؤس تبدیلی لائیں گی۔آصف علی زرداری اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ 18 لیگی ایم پی ایز کی رکنیت معطل ہے وہ اسمبلی میں داخل نہیں ہو سکتے تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی کا طویل اجلاس ختم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد لانے اور گورنر راج لگانے کے آپشنز فی الحال کم ہیں۔ 

 ان ہاؤس تبدیلی زیادہ مضبوط آپشن اس لئے ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جائے گی بلکہ پی ٹی آئی اور اور ق لیگ کے اتحاد کے بارے میں یہ سوچا جارہا ہے کہ اگر اعتماد کا ووٹ نہ لیا جاسکا تووزیرا علی کا انتخاب دوبارہ ہوگا اور اس سلسلے میں ق لیگ کے چھ ارکان کی شجاعت کیمپ میں واپسی اہم  ہے اور سیاسی صورتحال بدل سکتی ہے۔ق لیگ کے چھ ارکان کی شجاعت کیمپ میں واپسی اس سلسلہ میں گیم چینجر بن سکتی ہے۔اس وجہ سے آصف زرداری نے چودھری شجاعت سے بھی باقاعدہ ملاقات کی ہے ۔چودھری برادران ملک کی سیاست میں اس وقت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ ایک طرف چودھری شجاعت ہیں تو دوسری طرف وزیر اعلی پنجا ب چودھری پرویز الٰہی جو پی ٹی آئی کےچیئرمین عمران خان کے اتحادی ہیں۔

لیگی قائدین کے مطابق پنجاب میں کافی آپشنز ہیں۔قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بجائے انہیں گورنر، اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔اس طرح نمبر گیم مزید اہمیت کی حامل ہوگی۔ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جائے گی اور وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہا جائے گا ، اعتماد کا ووٹ نہ لیاجا سکا تو وزیر اعلی کا دوبارہ انتخاب ہوگا۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کراؤ ملک بچاؤ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے فور طورپر ملک میں انتخابات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اتفاق کیاہے کہ الیکشن کو التوا میں ڈالنے کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی ۔پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے اسحاق ڈار کے ساتھ غیر رسمی رابطے ہورہے ہیں، صدر مملکت نے بھی اسحاق ڈار کو سمجھایا، پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے میں تاخیر کے خواہشمند ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے اگر عمران خان سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں تو حکومت مذاکرات کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، عمران خان کا مذاکرات کے ٹیبل پر آنا خوش آئند بات ہے لیکن مذاکرات پیشگی شرط کے بغیر ہوں گے۔مسلم لیگ ن میں پنجاب کی سیاست میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، عمران خان کے اگلے لائحہ عمل کا انتظار کیا جائے گا۔

  پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لیے بڑی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں یا تو حکومت کو وہاں علیحدہ سے نئے انتخابات کروانے پڑیں گے یا پھر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے جلد ایک ساتھ انتخابات کروانے ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔تاہم اب  عمران خان نے پارٹی سے اپنے خطاب میں اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر مذاکرات کریں۔ایسے میں یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ آخر عمران خان نے اعلان کے بعد اس میں تاخیر کا عندیہ کیوں دیا؟ وہ کیا مضمرات ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے جارحانہ کی بجائے احتیاط سے چلنے کا فیصلہ کیا؟۔تاہم آئندہ آنے والے دن بہت  اہم ہیں اوراس میں صوبائی اسمبلیوںکے مستقبل کا فیصلہ ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے گا۔


   

 محمد نویداسلم سینئرصحافی ہیں ،روزنامہ خبریں،نیا اخبار،صحافت ،دوپہر، روزنامہ وقت (جنگ گروپ ) کے ساتھ وابستہ رہے۔آجکل نوائے درویش سمیت مختلف ویب سائیٹس کے لئے بلاگنگ کررہے ہیں،حالات حاضرہ ،شوبز،سپورٹس سمیت دیگر امور پرگہری نظر رکھتے ہیں۔


نوٹ: یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری  نہیں ہے 








Share:

1 comment:

  1. موجودہ سیاسی صورتحال پر ایک اچھا تجزیہ

    ReplyDelete

Recent Posts