مافوق الفطرت دنیا کاقصہ گوصحافی،مشتاق وارثی
ہائی ایس شملہ پہاڑی چوک کے گرد دوسراچکرلگارہی تھی جبکہ میں پریشان تھا کہ ڈرائیورنے خود ہی لفٹ دی اور گھرچھوڑنے کی پیشکش کی۔لاہورپریس کلب کے دروازے کے کچھ پیچھے ڈرائیورنے مڑکرمیری طرف دیکھا تو اسکی نظریں اپنے جسم میں سے پارہوتی ہوئی محسوس ہوئیں، پھرکیا ہواکہ چارپہیوں والی گاڑی دوفٹ جگہ پر ایک ہی ٹائرپرزورسے گھومی۔ میں دم بخود تھا بلکہ میری اوپرکی سانس اوپراورنیچے کی نیچے رہ گئی۔ میں دم سادھ کربیٹھ گیا۔ خیرتیسرے چکر پر ڈرائیورنے گاڑی گڑھی شاہو کی طرف ڈال دی۔ میں زبان دانتوں تلے دبائے خاموش تھا،ڈرائیورکی طرف دیکھتا تو خوش رگوں میں جم جاتا۔ ڈرائیورکبھی کبھی مجھ پرنظرڈالتا تومردنی کیفیت میں چلاجاتا۔ وہ حیران کن طورپر مجھ سے پوچھے بغیر میرے گاڑی میرے گھرکے پاس لے گیا۔ گاڑی روک کرمجھ پرنگاہ ڈالی تومیں گویابے جان سا ہوکر فرنٹ سیٹ سے جاں کنی کے عالم میں سڑک پرگرساگیا۔گاڑی سے گھرکے گیٹ تک چندفٹ کافاصلہ مجھےصدیوں کافاصلہ لگنے لگا۔ نہیں معلوم کیسے گیٹ کھول کر گھرمیں داخل ہوا اور جاتے ہی چارپائی پراوندھے منہ گرگیا۔ میں بے سدھ پڑاتھا اور کچھ دیر بعداوسان اس وقت بحال ہوئے جب میری ہی گلی میں قریبی گھر سے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ پتہ چلا کہ میرے گھرسے دوتین گھرفاصلے پرواقع گھرکا کفیل ابدی نیند سوگیا۔ یہ خبرسنی تومجھے ڈرائیور کی نگاہوں کی پراسرار کاٹ کی کچھ کچھ سمجھ آئی۔ میں گویاغیرمرئی طورپر لاہورپریس کلب سے گھرپہنچا،اپنے سانسیں کئی بار رکتی محسوس ہوئیں مگر اس پراسرارڈرائیور کاہدف شایدمیں نہیں تھا۔ یہ مافوق الفطرت کہانی مجھے مشتاق وارثی نے سنائی جس کاکہناتھا کہ اسے ایسالگا وہ ویگن ڈرائیورنہیں تھا ۔ موت کافرشتہ آن ڈیوٹی تھا۔ جومجھ پربھی نگاہ ڈالتاتو ایسے لگتاتھا جیسے کاٹوتوبدن میں لہونہیں۔ اس سے آنکھ ملانا دنیا کاسب سے مشکل کام تھا۔ وہ میری گلی میں ہی توجارہاتھامگراس کی نگاہیں مجھے بھیوارننگ دے گئیں۔
مشتاق وارثی میرااوپننگ بیٹسمین تھا جو روزنامہ دوپہرکی اس ٹیم میں تھا جس کی نیوز ٹیم کی قیادت میرے سپرد تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب روزنامہ وقت کی آمد سے پہلے عبدالعلیم خان روزنامہ صحافت اور ایوننگر کااخبارروزنامہ دوپہروقت کی انتظامیہ شائع کررہی تھی۔ سعیدچودھری صاحب روزنامہ صحافت اور ’’وقت‘‘کی ڈمی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ایوننگر کانیوزایڈیٹرمجھے مقررکیا۔ روزنامہ دوپہر میں جتنابھی کام کیا اس سے میری پیشہ وارانہ مہارت دوچندہوگئی۔ اس وقت روزنامہ دوپہربے نام تھا۔ ایڈیٹرجواد نظیرصاحب کی ہدایت تھی کہ اس کواس قابل کرنا ہے کہ سٹالز پرنظرآئے۔ اس کے لیے ہمارے ان پٹ کے سورسز میں انگریزی اخبارات ڈان،دی نیوز،دی نیشن ،ڈیلی ٹائمزاورانٹرنیشنل اخبارات تھے۔ اُس وقت انتظامیہ نے اے ایف پی کی سروس بھی مستعارلی اورہم ایکسکلوسو خبروں کا ترجمہ کرکے،ان کی پیڈنگ کرکے ایوننگر کی ایسی سرخی لگانے کی کوشش کرتے جو دیکھنے والے کواپنی طرف کھینچ لے۔ ڈیسک پر میری اس ٹیم میں اعجاز مقبول صاحب،شفیق بھٹی صاحب،نویداسلم مغل، حافظ نعمان،عزم وہمت کے کوہِ گراں نویدحسن اور راشد محمود (اللہ بخشے) میرے شانہ بشانہ تھے۔ صبح 4بجے دفترپہنچ کر ایک گھنٹہ تک انگریزاخبارات کامطالعہ کرنااورخاص طور پر ایکسکلوسو خبروں کولائن اپ کرلینا ایک شاندارتجربہ ہوتاتھا۔ رپورٹنگ ٹیم میں ہمارے پاس سب سے منفرد مشتاق وارثی تھے۔ جواد نظیرصاحب نے ان کی ڈیوٹی خبردینے پرنہیں ریسرچ رپورٹ پرلگائی تھی جو روزانہ مشتاق وارثی کی تصویرکے ساتھ شائع ہوتی۔ یہ ریسرچ رپورٹ لاہورکی تاریخ تھی’’لوہ سے لاہورتک‘‘۔ اس کالم نمارپورٹ کا قارئین روز انتظارکرتے تھے۔ یہاں اس رپورٹ یاکالم کا اقتباس کچھ ایساہے کہ ’’دریائے راوی کبھی شالامارباغ کے پاس سے بہتاتھا اور باغ کی جگہ مینوئل فلٹریشن کرکےلاہورکی آبادی کے لیے پینے کے پانی کاانتظام کیا جاتاتھا‘‘۔ مشتاق وارثی کی تحریر اور طرزبیان میں جان تھی۔ وہ جولکھتاپراثرہوتاتھا۔ جواد نظیرصاحب بھی خوش تھے۔ پھریوں ہوا کہ روز نامہ دوپہرختم کرکے ہماری ٹیم کو واپس روزنامہ وقت کی ٹیم میں بلالیاگیا۔ پھرمشتاق وارثی سے ملاقاتیں محدودہوتی گئیں۔ اسے اپنے بیٹے نویدعامرکے مستقبل کافکرستائے رکھتاتھا۔ کہتاتھا کہ اس کے روز گارکابندوبست ہوجائے تواس کی پریشانی کم ہو۔ ایک شام کو نویدکی کال آئی جوہچکیوں کے ساتھ رورہاتھا کہ آپ کایار ابدی نیندجاسویاہے۔ رات ساڑھے دس بجے جنازہ تھا۔ گھرسے چوبچہ پھاٹک پہنچاتومیری طرح وسیم فاروق شاہد بھی نویدعامرکاگھرڈھونڈرہے تھے۔ ہم دونوں گلیوں میں سے پوچھتے پچھاتے۔ ڈھونڈتے ہوئے مرحوم کے گھرپہنچے۔ وہاں افتخارکاظمی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ نمازہ جنازہ کے انتظارمیں مرحوم کی یادیں تازہ کرتےرہے۔ نمازہ جنازہ میں عزیزرشتہ دار،محلے داراورمشتاق وارثی کے تعلق دارموجود تھے مگر ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جن کی تعداد سب سے زیادہ ہونی چاہئے تھی یعنی صحافی برادری۔ میں آج بھی سوچتاہوں کہ ہم لوگ اپنی برادری کے بارے میں اتنے بے حس کیوں ہیں؟اپنا پیٹی بھائی مرے توہمیں اپنی مصروفیات یادآجاتی ہیں۔مشتاق وارثی ابدی نیند سوگیا مگراس کی موت ہم سے ہماری بے حسی کاجواز پوچھ رہی ہے۔ اس داستان گوصحافی نے موت کافرشتہ ایک دھائی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے دیکھ لیاتھا، وہ ڈراہواتھامگر خوف کاانجام بھی موت پرہی ہوتاہے۔ لوہ سے لاہور تک کی کہانی سنانے والا آج زندہ نہیں مگراس کی کہانی کے الفاظ تاثیراوراس کے تصورات کی بازگشت کبھی نہیں مرسکتی۔
یہ مافوق الفطرت کہانی مجھے مشتاق وارثی نے سنائی جس کاکہناتھا کہ اسے ایسالگا وہ ویگن ڈرائیورنہیں تھا ۔ موت کافرشتہ آن ڈیوٹی تھا۔ جومجھ پربھی نگاہ ڈالتاتو ایسے لگتاتھا جیسے کاٹوتوبدن میں لہونہیں۔ اس سے آنکھ ملانا دنیا کاسب سے مشکل کام تھا۔ وہ میری گلی میں ہی توجارہاتھامگراس کی نگاہیں مجھے بھی
وارننگ دے گئیں۔
No comments:
Post a Comment