آیا صوفیہ
سید محمود شیرازی۔۔۔۔۔۔فکرمحمود
1923 میں اگر ترکی سے سلطنت عثمانیہ کا دور ختم نہ ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی عثمانی خاندان کی بادشاہت چل رہی ہوتی تو یقینا آیا صوفیہ نہ مسجد سے میوزیم میں تبدیل ہوتا اور نہ ہی اب ترک صدر کو اسے اپنا داخلی معاملہ قرار دینا پڑتا۔ یا اگر جدید ترکی کے پہلے صدر کمال اتاترک اس عمارت کو میوزیم میں تبدیل نہ کرتے تو ہو سکتا ہے تو گزرے پچاسی سالوں کے دوران بھی یہ عمارت مسجد ہی ہوتی اور وہاں اذان گونج رہی ہوتی۔لیکن یہ سب مفروضوں کا کھیل ہے اب ترکی میں نہ تو بادشاہت ہے اور نہ ہی وہاں خلافت ہے جس کی بنیاد صرف چند سو کلو میٹر کے علاقے سے ہوئی اور عروج کے دور میں یہ سلطنت تین براعظموں تک محیط تھی اور اس کا رقبہ بیس لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد تھا۔ موجودہ آیا صوفیہ کو آج سے کوئی پندرہ سو سال قبل تقریبا 532میں اس وقت کی بازنطینی حکومت کے دور میں موجودہ استنبول میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر پانچ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔اس سے قبل بھی رومن دور میں استنبول شہر میں دو بار آیا صوفیہ کو تعمیر کیا گیا لیکن دونوں بار رومن حکومت میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران یہ عمارت جل کر رکھ ہو گئی کیوں کہ اس کی چھتیں لکڑی کی تعمیر کی گئیں تھیں۔پھر 532میں بانطینی بادشاہ جسٹینین اول (Justinian I) جس نے 527 سے لے کر 564 تک حکومت کی اس کے دور میں اسے تعمیر کیا گیا۔ بار بار جل جانے کی وجہ سے اس نے اس دور کے معروف ماہر تعمیرات سیاس کا ڈھانچہ مضبوط تشکیل دینے کو کہا۔537 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور تب سے لے کر آج تک آیا صوفیہ نا صرف موجود ہے بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے یہ ایک اہم مقام بھی ہے۔
فرش اور چھتوں میں استعمال ہونے والا ماربل اناطولیہ اور شام سے جبکہ اس کی دیواروں میں استعمال ہونے والی اینٹیں اس دور میں شمالی افریقہ سے استنبول پہنچائیں گئیں۔ اس پندرہ سو سال کے عرصے میں یہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کیلئے ایک اہم علامت کے طور پر جانی جاتی رہی ہے۔ موجودہ استنبول شہر جسے عرب قسطنطنیہ کہتے ہیں اس کا قدیم نام بازنطین (Byzantine)تھا۔ لیکن جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسٹینٹائن اول
(Constantine I) نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل (Constantinople) کر دیا، جسے عربی زبان نے بدل کر قسطنطنیہ کر دیا۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی۔آپ ﷺ نے بشارت دی تھی اور صحیح بخاری میں ایک باب ہے فی قتال الروم اس میں ایک حدیث ہے کہ میری امت کا وہ پہلا گروہ جو سمندری غزوہ یا جہاد کرے گا ان پر جنت واجب ہے۔اور حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں 674عیسوی میں مسلمانوں نے پہلا بحری بیڑہ تیار کیا اور اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔چار سال تک مسلمان اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن 678میں انہیں وہاں سے ناکام لوٹنا پڑا۔اسی حملے میں مدینہ میں آپ ﷺ کی میزبانی کرنے والے صحابی رسول حضرت ایوب انصاری ؓ بھی شہید ہوئے۔اس کے بعد تقریبا اگلے آٹھ سو سال تک مسلمان اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ اس طرح سلطان محمد دوم نے اسے 29مئی 1453 میں فتح کیا اس طرح چودہ سو سال سے زائد عرصہ تک قائم رہنے والی رومی سلطنت اپنے انجام کو پہنچی۔ سلطان محمد نے کونسٹینٹینوپل یا قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول کر دیا۔اس شہر کی تاریخی عمارت آیا صوفیہ جسے یونانی آرتھوڈکس چرچ میں مرکزی اہمیت حاصل تھی اسے سلطان محمد دوم نے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ مسجد میں تبدیل ہونے کے بعد مسلمان حکمرانوں نے اس گرجا گھر میں موجود بہت سے نشان مٹا دیئے اور ان کی جگہ اسلامی خطاطی کی گئی۔ اس کے مرکزی گنبد پر حضرت عیسی ؑ کی شبیہ بھی موجود تھی اسے بھی سونے سے کی گئی خطاطی سے مٹا دیا گیا۔ سلطان سلیمان عالیشان، سلطان مراد سوم اور سلطان عدالحمید کے دور میں اس مسجد میں اہم تبدیلیاں کی گئیں۔محراب بنائے گئے اور عمارت کے باہر مسجد کی مناسبت سے چاروں کونوں پر مینار کھڑے کئے گئے۔1935 میں جب جدید ترکی کی بنیاد رکھی گئی تو کمال اتا ترک نے اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا اور پھر 1985میں یونیسکو کی عالمی مقامات کی فہرست میں اسے شامل کیا گیا۔ گزشتہ انتخابات سے قبل ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس عمارت کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انہوں نے اب عملی جامہ پہنا دیا ہے۔ ترک صدر کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی گرتی ہوئی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترک حکومت نے اسے مسجد بنایا ہے تا کہ مسلمانوں کے ایک طبقے کی حمایت حاصل کی جا سکے لیکن اس کو مسجد بنانے پر یونان اور روس میں موجود آرتھوڈکس چرچ نے ناراضی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین خلیج میں اضافہ ہو گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ ترک صدر ایک ایسی شبیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں کہ انہیں اسلامی دنیا کا رہنما تصور کیا جائے اور اس مقصد کیلئے وہ ہر وہ اقدام کر رہے ہیں جس سے انہیں مسلمان اور قدامت پسند طبقے کی حمایت حاصل ہو کیوں کہ اسی طبقے کی حمایت کی وجہ سے ترکی کے ایوانوں میں موجود ہیں۔ ڈرامہ سیریل ارطغرل اس کی واضح مثال ہے کیوں کہ اس ڈرامے کے ذریعے انہوں نے ترک ثقافت اور ترک سلطنت عثمانیہ کے تشخص کو اب گھر گھر پہنچا دیا ہے تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ارطغرل اگرچہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے اورخان کے دادا تھے لیکن سلطنت عثمانیہ کو بنانے یا قائم کرنے میں انہوں نے صرف معمولی کردار ادا کیا تھا جسے اس ڈرامے میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور کئی کرداروں کو جن کے درمیان صدیوں کو خلا یا گیپ ہے انہیں آپس میں ملا دیا ہے۔خیر جب ارطغرل ہے ہی ایک ڈرامہ تو اسے حقیقت سمجھنے والوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے لیکن آیا صوفیہ ایک حقیقت ہے اور ترک صدر نے اسے مسجد میں تبدیل کر کے ترکی سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت ضرور حاصل کر لی ہے۔
نوٹ: یہ کالم نگار۔بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment