والدین تنقید بھی کرتے ہیں اور بچہ بھی پرائیویٹ سکول میں بھیجتے ہیں:عثمان امجد بھٹی
٭....میری پیدائش پاکستان بننے کے 18 سال بعد کی ہے ، والدہ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آئی تھیں جبکہ میرے دادا 1920 میں یہاں آ گئے تھے، ہجرت بارے اپنی والدہ سے سنا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے جو بہت المناک ہے
٭....میں کاروبار کرنا چاہتا تھا اور میرے والد کی خواہش تھی کہ استاد بنوں۔ سو انکی دعا سے مری چاہت بھی پوری ہوئی اور انکی خواہش بھی۔ میں استاد بھی ہوںاور کاروبار بھی کررہا ہوں
٭....میں اصل میں تو ایک استاد ہوں اور میرا ماننا ہے کہ استاد ہر فن مولا نہ بھی ہو اسے ہر فن کی درک ضرور ہوتی ہے، شکار کرتے ہوئے مجھے اپنے اندر کے نرم انسان کو سلانا پڑتا ہے
٭.... میں اوائل عمری سے ہی ایک اچھا مقرر رہا ہوں۔ مجھے پہلا انعام پہلی جماعت میں ملا تھا۔ میں نے اپنے شہر کے ہائی سکول میں جلسے میں ایک نظم پڑھی تھی۔ ڈائس کے پیچھے ایک کرسی رکھی گئی تھی اس پر کھڑے ہو کر میں نے نظم پڑھی۔ انعام کے طور پر مجھے ایک لفافہ ملا۔ گھر جا کر اسے کھولا تو اس میں پانچ روپے کا نوٹ تھا۔ یہ بات غالباً 1970 کی ہے۔ اسکے بعد بیسیوں انعامات ملے۔
٭.... بچہ گھر کے ماحول اور خصوصاً ماں اور باپ سے سیکھتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ پہلے وہ طے کریں کہ وہ اپنے بچے کو کن خوبیوں والا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ پھر وہ خوبیاں اس میں پیدا کرنے کی کوشش اسکے بچپن سے ہی کریں۔ اللہ سے مدد مانگیں۔ ان شاءاللہ بچہ ویسا ہی بنے گا۔
٭....پرائیویٹ سکول کا الگ ڈائریکٹوریٹ ہے، وہاں تک رسائی کا کوئی سادہ یا آسان طریقہ نہیں ہے۔ سرکار نجی سکولوں سے تین نمائندے لیتی ہے مگر وہ عموماً کافی چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگ ثابت ہوئے ہیں۔ کسی وزیر یا سیکرٹری کے ساتھ تصویر چھپوا لینا انکی زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔جن کی سوچ اتنی پست ہو وہ بات کرنے کی جرائت کیسے کر سکتے ہیں۔ حکومت سپورٹ کرنے کی بجائے دشمنی کرتی ہے
٭....حکومت اور میڈیا کی پرائیویٹ سکول بارے منفی پالیسی نے بھی والدین کے دل سے نجی سکول کی عزت کو کم کیا ہے۔والدین کے پرائیویٹ سکول کے ساتھ اس رویے نے تدریسی عمل کی روحانیت کو ختم کر دیا ہے
ایس ایم ایس(سٹینڈرڈماڈل سکول) کے چیئرمین عثمان امجد بھٹی کانوائے درویش کے لئے خصوصی انٹرویو
پینل: عبدالمعز، عبداللہ، وقار
چاہت اور خواہش کا پورا ہونا دعاﺅں اور اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیںہوتا۔چاہت اور خواہش ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن ضروری نہیںکہ ہر شخص کی چاہت اور خواہش پوری ہوجائے کوئی نہ کوئی کسک رہ جاتی ہے۔ اولاداگر والدین کے شعبے سے وابستہ ہوجائے اور باصلاحیت بھی ہو توپنجابی میںیہ کہا جاتا ہے کہ”بوڑھ دی تھانویں بوڑھ لگ گیا اے“۔۔اچھرہ ، سمن آباد کے معروف سکول ایس ایم ایس(سٹینڈرڈماڈل سکول) کے چیئرمین عثمان امجد بھٹی کی شخصیت بھی بالکل ایسی ہے جیسے ”بوڑھ کی جگہ پربوڑھ“۔۔۔ وہ اس درخت کی مانند ہیں جو انتہائی گھنا ہے اور اس درخت نے نجانے کتنے لوگوںپر صحر امیں چھاﺅں کی ہوئی ہے۔گذشتہ دنوں ”نوائے درویش“ کی ٹیم نے ان سے خصوصی نشست کی اور ان کے اوراق زیست سے پردہ اٹھایا۔ یہ خصوصی انٹرویو شائقین کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔
نوائے درویش : آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے؟
ج:میرا تعلق چیچہ وطنی ضلع ساہیوال سے ہے۔
نوائے درویش : اپنی فیملی کے بارے میں بتائیں؟
ج:میں راجپوت ہوں اور میری گوت بھٹی ہے ۔میرے خاندان کا رجحان پڑھنے اور پڑھانے کی طرف رہا ہے۔ میرے والد محترم اردو اور فارسی کے استاد تھے۔ اس وقت میرے خاندان میں کافی لوگ پی ایچ ڈی ہیں اور پاکستان کے سکولوں اور جامعات سے لیکر امریکہ ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کی یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں۔
نوائے درویش : اپنے آبائی علاقے اور جوانی کی کچھ یادوں کی بارے میںبتائیں؟
ج:میرا علاقہ اور میری جوانی کی یادیں ایک ناول کی متقاضی ہیں ۔
نوائے درویش :آپ کے آباﺅ اجداد ہجرت کرکے پاکستا ن آئے ، کچھ اس بارے میںدھندلی یادوں کا تذکرہ کریں؟
ج:میری پیدائش پاکستان بننے کے 18 سال بعد کی ہے۔ میری والدہ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آئی تھیں جبکہ میرے دادا 1920 میں یہاں آ گئے تھے۔ ہجرت بارے اپنی والدہ سے سنا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے جو بہت المناک ہے۔
نوائے درویش : کیاآپ کے پاس والدہ کا کچھ سامان جو ان کے پاس ہجرت کے وقت تھا ہے؟
ج:ہجرت کے وقت تو لوگ بمشکل جانیں بچا پائے ، سامان کی کسے ہوش تھی۔
نوائے درویش :آپ کے خاندان نے قربانی دی آپ تحریک پاکستان کوکس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج: پاکستان ناگزیر تھا اس لیے تحریک تو اٹھنی ہی تھی۔15 /16 سال کی عمر میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ 1984 میں ایک تقریری مقابلے میں میں نے ایک جملہ بولا تھا کہ پاکستان اگر 1947 میں نہ بنتا تو 1984 میں بن جاتا۔ یہ بات آج بہت واضح ہو کر ہمارے سامنے ہے۔
نوائے درویش :پاکستان آکر آباﺅ اجداد کا گزر بسر کیسے ہوا؟
ج:میرے آباﺅ اجداد نے ابتدامیں کھیتی باڑی کی ۔وقت گزرنے کے سا تھ ملازمت اور پھر اسکے ساتھ کاروبار کیا۔
نوائے درویش :وطن کی محبت کے بارے میں کیا کہیںگے؟
ج:وطن سے محبت ہونی چاہئے، جیسے اپنے والدین سے ہوتی ہے۔
نوائے درویش : آپ کے چودہ اگست پر کیا جذبات ہوتے ہیں؟
ج:توقف کے بعد۔۔۔۔وہی جو فیض کے ان کی ایک نظم میں ” تم ہی کہو کیا کرنا ہے“ میں ہیں۔
نوائے درویش :آج کے پاکستان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:عام آدمی کے لیے یہ ایک ناکام ریاست ہے
کچھ سوال ذاتی نوعیت کے
نوائے درویش:آپ کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کہاں ہے؟
ج:میری تاریخ پیدائش26 جولائی 1965ہے، میں چیچہ وطنی میں پیدا ہوا۔
نوائے درویش: آپ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں آپ نے یہ شعبہ کیوں چنا؟
ج:میں کاروبار کرنا چاہتا تھا اور میرے والد کی خواہش تھی کہ استاد بنوں۔ سو انکی دعا سے مری چاہت بھی پوری ہوئی اور انکی خواہش بھی۔ میں استاد بھی ہوںاور کاروبار بھی کررہا ہوں۔
نوائے درویش:اپنی ذات کے بارے میںکچھ بتائیں آپ کس قسم کے انسان ہیں؟
ج:میری بارے میں اگر دوسروں سے پوچھا جائے تو بہتر ہے۔ بہر حال میں ایک محبت کرنے والا اور نرم دل انسان ہوں۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنی باطنی خباثتوں کے ساتھ بر سرِ پیکار رہتا ہوں۔ درویشی اور دنیا داری کی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ اگر کوئی مجھے کسی مجمعہ میں آگے بیٹھنے کو کہے اور میری تعریف کرے تو میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے عام رہنا اچھا لگتا ہے لیکن اگر کوئی مجھے پیچھے بٹھا دے اور مجھے اہمیت نہ دے تو مجھے بہت برا لگتا ہے۔ یہ میری شخصیت کا تضاد ہے۔ اصل میں یہ وہی درویشی اور دنیا داری کی کشمکش ہے جو میرے اندر چل رہی ہے۔
نوائے درویش:عمر گزر گئی آپ کوپڑھاتے ہوئے آپ کو اپنے کوئی سٹوڈنٹس یاد ہیںاور کیاان سے رابطہ ہے؟
ج:جی ایسے بہت سے طالب علم ہیں۔
نوائے درویش:کہا جاتا ہے کہ زندگی آسان نہیںہوتی اس کوبنایا جاتا ہے آپ اس بارے میںکچھ تجربات شیئر کریںگے اور مشکلات کاتذکرہ کریںگے؟
ج:ہر شخص کے لیے آسان زندگی کا معیار الگ الگ ہو سکتا ہے۔ میری دانست میں زندگی آسان نہیں بنائی جا سکتی البتہ مشکلیں کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ چار عادات آپکی زندگی کی مشکلیں کم کر سکتی ہیں۔ ایک ، آپ بنا طلب کئے مشورہ نہ دیں۔ دوسری ، بحث میں نہ الجھیں ، تیسری دوسروں کی غلطیاں معاف کریں اور چوتھی ، جو بات آپ چاہتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے وہ کسی سے نہ کریں یعنی غیبت مت کریں۔
نوائے درویش:کتب دوستی کے بارے میںکچھ بتائیں، آپ سنا ہے بک ریڈر ہیںاور شائد اسی وجہ سے حلقہ احبا ب میں لیڈر(قائد) بھی مشہور ہیں؟
ج:کتاب واقعی بہترین ساتھی ہے۔ یہ آپ کا دل بھی بہلاتی ہے ، آپکو علم ، آگہی اور سوچ دیتی ہے۔ آپ پر طنز نہیں کرتی ، آپ کو تنگ نہیں کرتی بلکہ آپ کا کہنا مانتی ہے۔ آپ جب چاہیں پڑھنا چھوڑ دیں اور جب چاہیں اسے پھر سے اٹھا لیں۔ اس میں رقابت کے جذبات بھی پیدا نہیں ہوتے، یعنی آپ دو یا تین کتابیں بھی بیک وقت پڑھ سکتے ہیں یہ آپس میں ہنسی خوشی رہ لیتی ہیں۔ آپ سونا چاہیں تو یہ آپکو جاگنے پر مجبور نہیں کرتی اور اگر جاگنا چاہیں تو لائٹ بجھانے پر اسرار نہیں کرتی اور نہ کبھی یہ تھکتی ہے۔ آپ جب بھی اسکو پڑھنے کو اٹھائیں یہ مچل کر آپ کے ہاتھ آجاتی ہے۔ اب ایسی خصوصیات آپ کو کتاب کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتیں !۔
لیڈر کے لیے تو قائدانہ صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ میرے فہم کے مطابق لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے لوگوں میں کسی کام کے کرنے کے جذبہ کو ابھار سکتا ہو اور مشکل ترین وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہو۔ اسکی باقی بہت سی خوبیاں ہیں جو ان دو خوبیوں کے بعد شمار ہوتی ہیں۔
نوائے درویش:کتاب دوست شخص جب ہاتھ میں شکار والی گن پکڑتا ہے تو کیسا لگتا ہے اور یہ شوق کب اور کیسے ہوا اس بارے میں کچھ بتائیں؟
ج:میں اصل میں تو ایک استاد ہوں اور میرا ماننا ہے کہ استاد ہر فن مولا نہ بھی ہو اسے ہر فن کی درک ضرور ہوتی ہے۔ شکار کرتے ہوئے مجھے اپنے اندر کے نرم انسان کو سلانا پڑتا ہے۔ بندوق پکڑنا اور نشانہ داغنا شائد میرے خون میں رہا ہو کہ اپنے آبا کا پیشہ تو سپاہ گری ہی تھا۔ یہ بہت جوشیلا کام ہے۔ میں نے پہلا شکار 22 سال کی عمر میں کیا تھا۔ تب میرے پاس نہ تو اپنی بندوق تھی اور نہ ہی شکار کا باقی سامان۔
نوائے درویش: آپ سیرو سیاحت کے شوقین ہیں اس بارے میں تفصیل سے کچھ بتائیں؟
ج:جی سیرو سیاحت میری ذات کا حصہ ہے۔ پاکستان میں بلوچستان کا تھوڑا حصہ دیکھا ہے۔ باقی سارا پاکستان دیکھا ہے اور شمالی حصہ میں تو بہت سے علاقے بہت بار دیکھے ہیں اور تب دیکھے ہیں جب راستے دشوار تھے اور سہولتیں کم تھیں۔ پاکستان کے علاوہ سعودی عرب ، تھائی لینڈ ، جنوبی افریقہ ، ویت نام اور کمبوڈیا کی سیاحت کی ہے۔
نوائے درویش:آپ اب انعامات تقسیم کرتے ہیں خود کبھی انعام ملااور اگر ملا توکیا تھا؟
ج:میں اوائل عمری سے ہی ایک اچھا مقرر رہا ہوں۔ مجھے پہلا انعام پہلی جماعت میں ملا تھا۔ میں نے اپنے شہر کے ہائی سکول میں جلسے میں ایک نظم پڑھی تھی۔ ڈائس کے پیچھے ایک کرسی رکھی گئی تھی اس پر کھڑے ہو کر میں نے نظم پڑھی۔ انعام کے طور پر مجھے ایک لفافہ ملا۔ گھر جا کر اسے کھولا تو اس میں پانچ روپے کا نوٹ تھا۔ یہ بات غالباً 1970 کی ہے۔ اسکے بعد بیسیوں انعامات ملے۔
نوائے درویش:والد بچے کی زندگی بناتا ہے اس بارے میںکچھ بتائیں؟
ج:بچہ گھر کے ماحول اور خصوصاً ماں اور باپ سے سیکھتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ پہلے وہ طے کریں کہ وہ اپنے بچے کو کن خوبیوں والا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ پھر وہ خوبیاں اس میں پیدا کرنے کی کوشش اسکے بچپن سے ہی کریں۔ اللہ سے مدد مانگیں۔ ان شاءاللہ بچہ ویسا ہی بنے گا۔
نوائے درویش:آپ بحیثیت والد اور شوہر گھر پرکس قسم کے ہیں؟
ج:میں بہت محبت کرنے والا ، نرمی کرنے والا اور عزت دینے والا باپ اور شوہر ہوں۔
نوائے درویش:حلقہ یاراںاور حلقہ احباب کی رائے آپ کے بارے میںکیا ہے؟
ج:کسی کے سامنے تو کوئی بھی بری رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ میری غیر موجودگی میں میرے دوست میرے بارے کیا کہتے ہیں وہی اصل ہے اور اس رائے تک میری رسائی کیسے ہو سکتی ہے۔
نوائے درویش: آپ ایک متوسط علاقے میں ایک انتہائی اچھا اور کامیاب سکول چلارہے ہیں ، آپ نے بہت سے ذہنوں کی آبیاری کی پرائیویٹ سکولز کی تنظیم کے چیئر مین بھی ہیں، اس بارے میں کچھ بتائیں؟
ج:معاشرے میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ استاد کی عزت میں واضح کمی آئی ہے۔ صرف استاد کی عزت ہی نہیں ، والدین اور اپنے سے بڑوں کی عزت میں بھی کمی آئی ہے۔
حکومت اور میڈیا کی پرائیویٹ سکول بارے منفی پالیسی نے بھی والدین کے دل سے نجی سکول کی عزت کو کم کیا ہے۔ ہم پر تنقید بھی کرتے ہیں اور بچہ بھی پرائیویٹ سکول میں ہی بھیجتے ہیں۔ والدین کے پرائیویٹ سکول کے ساتھ اس رویے نے تدریسی عمل کی روحانیت کو ختم کر دیا ہے۔
نوائے درویش:آپ کے مسائل کے لئے حکومت تک رسائی کیسے ہوتی ہے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارہ چلانا حکومتی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیںہے،علاقے کے مخیر حضرات کیا آپ کی مدد کے لئے کبھی آگے آئے؟
ج:یہ آپ کے چار سوال ہیں۔میںاس بارے میںیہ کہوں گاکہ باوجود اسکے کہ پرائیویٹ سکول کا الگ ڈائریکٹوریٹ ہے، وہاں تک رسائی کا کوئی سادہ یا آسان طریقہ نہیں ہے۔ سرکار نجی سکولوں سے تین نمائندے لیتی ہے مگر وہ عموماً کافی چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگ ثابت ہوئے ہیں۔ کسی وزیر یا سیکرٹری کے ساتھ تصویر چھپوا لینا انکی زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔جن کی سوچ اتنی پست ہو وہ بات کرنے کی جرائت کیسے کر سکتے ہیں۔ حکومت سپورٹ کرنے کی بجائے دشمنی کرتی ہے۔ میرے علم میں نہی ہے کہ کبھی کسی مخیر حضرت نے کسی نجی سکول کی مالی مدد کی ہو۔
نوائے درویش: آپ اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیںگے اورگھر پر کتنا وقت دیتے ہیں؟
ج:گھریلو زندگی کی خوشگواریت کا تعلق محبت ، باہمی احترام اور درگزر پر ہے۔میں اگر لاہور میں ہوںتو اپنی شادی کے 26 سالوں میں کوئی رات گھر سے باہر نہیں گزری۔ اگر میں ایک روز شام ڈھلے گھر لوٹوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اگلی شام میری گھر پر گزرے اور ہم اکٹھے چائے پئیں۔میں اس بات کو بہت بڑی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھیں اور بچوں کے ساتھ گپ شپ لگائیں۔
نوائے درویش: بحیثیت استاد اور ایک محب الوطن قوم کے نام کیا پیغام دینا چاہیںگے؟
ج:میں اس بارے میں یہ کہوں گاکہ خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دینا چھوڑیں۔
No comments:
Post a Comment