مِتّو ( مطیع الرحمٰن ) کا اللہ میاں
نقطہ نظر۔۔۔۔۔عثمان امجد بھٹی
متّو کا تعارف تو میرے دوستوں کو ہے۔متو تھوڑا بہت پڑھا تھا، پھر سوال ایسے کرنے لگا کہ سادہ لوح اساتذہ کا مختصر سا ایمان خطر ے میں پڑ جاتا۔ وہ سوال کرتے تو عموماً متو جواب نہ دیتا اور گر جواب دیتا تو وہ اساتذہ کے کانوں سے دھواں نکالتے ہوزن سے گزر جاتے۔ یوں آہستہ آہستہ استاد اسے نکر سے لگاتے لگاتے گیٹ تک لے آئے۔اور گیٹ پر تو کلاس نہیں ہوتی۔ یوں متو کی رسمی تعلیم ختم ہوئی مگر وہ کسی الوہی تعلیم کے ہالے میں آگیا۔ جبھی وہ ایسی بات کر جاتا ہے کہ میں دنوں اسکے اثر سے نہیں نکل پاتا۔
کرونا کے خوف سے ان دنوں ہم گھر میں قید ہیں۔ میرا زیادہ وقت اپنی بیٹھک میں گزرتا ہے۔ آمد و رفت ہے نہیں اور نہ ہی کوئی کام۔ مصلا بھی یہیں بچھا رکھا ہے نماز پڑھنے کو۔ متو اکثر چلا آتا ہے۔ کبھی کوئی بات کرتا ہے ورنہ کچھ دیر خاموش بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ کبھی کبھی چائے کی فرمائش کرتا ہے۔ ویسے کمال ہی بندہ ہے بھئی۔ دو دن مجھ سے چائے پی لے تو تیسرے دن ہاتھ میں چائے کی فلاسک پکڑے نمودار ہوتا ہے، “امّی چائے پکا رہی تھی میں نے کہا میرے حصے کی جگ میں ڈال دو میں پائی جان کی بیٹھک میں جا کر پیوں گا۔ آپ اندر سے دو کپ لے آئیں “میں نے کہا “ چائے تو صرف تمہارے حصے کی ہے” بولا “ میری ماں پرانے وقتوں کی سیانی عورت ہے۔ آپ دو کپ لے کر آئیں“
کل نماز ِ عصر سے کچھ بعد متو صاحب تشریف لے آئے۔ سلام دعا کے بعد چپکے بیٹھ رہے۔ متو کسی اضطراری کیفیت میں اپنی انگلیوں سے کھیلتا رہتا ہے، آج بھی کھیل رہا تھا۔ انگلیوں کی حرکت رک گئی۔ کچھ دیر بعد مجھے مخاطب کیے بنامصلے کی طرف دیکھتا ہوا بولا ، میں نماز نہ پڑھ لوں۔ پھر مصلے پر جا کھڑا ہوا۔ میں ایک ناول پڑھ رہا تھا ، جاری رکھا۔ کچھ دیر میں متو کی دھیمی سی آواز سنائی دی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو متو نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔کتاب ایک جانب رکھتے ہوئے ، غیر ارادی طور پر میں بھی ہاتھ اٹھا لیے۔ متو مگن تھا اور دھیمی سی آواز مد و جزر کے ساتھ مجھ تک پہچ رہی تھی۔ متو اللہ سے کہہ رہاتھا، اے اللہ تو کتنا پیارا ہے اور تو نے مجھے کتنے پیار سے بنایا ہے۔ اور اب میں گڑگڑاتا ہوں اور تیری تعریف کرتا ہوں میں تو کبھی کبھی خوشامد بھی کرتا ہوں اورآنکھیں میچ کر جھوٹ موٹ رونے والی شکل بھی بناتا ہوں اور تھوڑی سی آنکھ کھول کر تیری طرف دیکھ بھی لیتا ہوں ، تو بھی مجھے پیار سے دیکھ رہا ہوتا ہے مگر جیسے ہی تجھے پتا چلتا ہے کہ میں چور آنکھوں سے تجھے دیکھ رہا ہوں تو جھوٹی موٹی ناراضی دکھانے کو فوراً دوسری جانب دیکھنے لگ جاتا ہے۔ میرے لیے محبت تمہارے دل میں بھی آ رہی ہوتی ہے۔ اب جانے دو اللہ میاں میرا اتنا دم نہیں۔میں تو چھوٹا سا ہوں اور لوگ مجھے جھلا بھی کہتے ہیں ، پوری دنیا میں اتنا دم نہیں ہے ، کچھ دیر رکا پھر آہستگی سے بولا، بڑا بنتا تھا امریکہ ، ہونہہ۔ خاموش ہوا اور پھر بولا ، اللہ میاں یہ بھی تو سوچو کہ تو صرف اللہ ہی نہیں ہے بلکہ تو ہمارا اللہ میاں ہے۔ میرا میاں تو مجھ سے بہت لاڈ کرتا ہے ، میری کوئی بات نہیں موڑتا ، کبھی غصہ کرلے تو میں جھوٹ موٹ رونی شکل بنا کر اسکے سامنے بیٹھ جاتا ہوں تو وہ مجھ سے جپھی ڈال لیتا ہے۔ میں تیرے سامنے رونی صورت بنا کے بیٹھا ہوں ، اور بھی کتنے بیٹھے ہونگے۔ اب تو مان جا۔ متو کی آواز آنا بند ہوگئی ، میں نے دیکھا اسکے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے!!
No comments:
Post a Comment