نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

تبصرہ سیر ِ لاہور


تبصرہ سیر ِ لاہور

نوائے درویش ٹیم:سید فیضان عباس،ریسرچ سکالر۔لاہور کا کھوجی)


لاہور کو آباد ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں لاہور کی شان و شوکت ، دیگر شہروں سے برتری اور صوبائی دارالحکومت ہونے کی روایت آج بھی قائم و دائم ہے۔ لاہور کو سنوارنے والے اور لوٹنے والوں کی فہرست طویل ہے ۔ سب سے پہلے راجہ لوہ ، اس کے بعد ایاز ، اکبر ، جہانگیر ، شاہ جہاں ، رنجیت سنگھ ، انگریز وں کے طویل ادوار شامل ہیں۔اور اس کے بعد پاکستان کے مختلف ادوار میں بھی یہ سلسلہ اس طرح جاری و ساری رہا ہے۔ لاہور کی پہچان ایک تو اس کی ماضی کی عظیم الشان تاریخ ہے جس کے آثار و باقیات آج بھی ہم میں موجود ہیں اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنی تصنیفات کا محور ہی لاہور کو بنائے رکھا۔انہوں نے اپنے تذکروں میں، یاداشتوں میں جس طریقے سے لاہور کو بیان کیا ہے وہ آج آنے والی نئی نسل کے لئے ایک قیمتی اثاثہ بن کر ایک تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔
لاہور پر برطانوی راج کے آنے کے بعد سب سے پہلی کتاب مولوی نور احمد چشتی نے 1868 میں تحقیقات چشتی تحریر کی۔ اس کے بعد رائے بہادر کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور کے نام سے 1884 ءمیں لاجواب کتاب کا تحفہ دیا۔پھررائے بہادر جج سید محمد لطیف نے تاریخ لاہور ، کرنل بھولا ناتھ وارث کی تاریخ شہر لہو ر ،منشی محمد دین فوق کی مآثر لاہور اور پروفیسر گلاب سنگھ نے سیر لاہور کے نام سے کتابیں لکھ کر نہ صرف لاہور کو اپنے زکر میں زندہ رکھا بلکہ لاہور سے اپنی محبت کا اظہار بھی کیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔تقسیم ہند 1947 ءکے نتیجے میں لاہور ایک مرتبہ پھر تباہ ہوا۔لاہور سے اجڑ کر جانے والے ہندو لاہوریوں نے اپنے تذکروں میں لاہور کو ایک بار پھرزندہ کرنے کی کوشش کی۔ جن میں سوم آنند کی کہاں گیا میرا شہر لاہور ؟ گوپال متل کی لاہور کا جو ذکر کیا ، سنتوش کمار کی لاہور نامہ پھر اے حمید جو کہ خود بھارت سے لاہور آئے تھے لاہور پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ پرانے لاہوریوں میں سے بابا یونس ادیب نے لاہور کی ثقافت پر شاہکار کتاب میرا شہر لاہور کے نام سے تصنیف کی۔
 اس کے بعد 1960 ءمیں ادارہ نقوش نے لاہور نمبر شائع کیا جو لاہور کی تاریخ پر گرا ں قدر کام ہوا۔ جس میںقدیم و جدید تقریبا تمام لاہور کو ہی سمو دیا گیا۔پھر 1990 کی دہائی کے بعد محمد طفیل، منشی محمد دین فوق، اصغر امرتسری، مولوی زکاءاللہ ، ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی ،انیس ناگی ، امتیاز حسین سبزواری، طاہر لاہور ی، ڈاکٹر مبارک علی ،رضوان عظیم ، شفقت حسین شرافت کی گمشدہ لاہور پروفیسر انجم رحمانی ،محمد الیاس عادل ، ڈاکڑ غافر شہزاد، ڈاکٹر ایم ایس ناز ، ایف ای چودھری ، منیر احمد منیر راو ¿ جاوید اقبال ، محمد نعیم مرتضی ، مدثر بشیر ، ایم آر شاہد ،سید فیضان نقوی ، ہارون خالد ، نے اپنی تصنیفات کا محور کو لاہور قرار دیا۔ ان سب کی کوششوں کے نتیجے میں لاہور کی تاریخ اور یاداشتوں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ تیار ہوگیا ہے۔جس کی مسحور کن خوشبو آنے والی کئی صدیوں تک لوگوں کو لاہور سے مہکاتی رہیں گی۔
زیر نظر یہ کتاب سردار منشی گلاب سنگھ جی کی تحریر کردہ کتاب ہے۔یہ کتاب انہوں نے 1937 ءمیں سکول کے طلباءکے لئے تحریر کی تھی۔جس میں انہوں نے طلبا کے ذہنی معیار کے مطابق لاہو رکو بہت ہی آسان انداز میں سیر کروائی ہے۔ ایسا انداز بیان اس سے پہلے کسی کتاب میں نہیں دیکھا گیا۔ آج یہ کتاب ناپید ہو چکی ہے۔پرانے نسخے نا معلوم کتب خانوں کے گم نام گوشوں میں مٹی میں دبے اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ یہ نسخہ بھی ایسے ہی مجھے ایک دوست امجد صاحب جن کا تعلق جھنگ سے ہے ان کی وساطت سے مجھ تک پہنچا ہے۔ میں نے اس میں موجود تمام مقامات اور تحریر کو من وعن ایسے ہی رہنے دیا ہے۔ جبکہ حاشئیے میں تمام مقامات اور ان سے متعلق معلومات کو آج تک کے مطابق مکمل تحریر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ قاری جو آج اس کتاب کو پڑھ رہا ہے کسی قسم کی تشنگی محسوس نہ کرے۔ضرورت اس امر کی ہے اسی نوعیت کی پرانی نایاب کتابوں کو دور حاضر کی ضرورتوں کے مطابق جدید کر کے آنے والوں کی راہنمائی کے لئے آسانی پیدا کی جائیں۔



Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts