نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

کرونا وائرس اور میری قوم


کرونا وائرس اور میری قوم

بزم انجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد بوٹا انجم


کرونا وائرس عذاب الہی ہے
شاعر نے کہا تھا
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
مگر آفات ناگہانی کے اس س ±رخیل کی آمد سے قبل یا اس کی موجودگی میں د ±نیا کے کسی خطے سے پرندوں کے کوچ کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔اس لیے کہ یہ قیامت پرندوں،چرندوں،درندوں اور آبی مخلوق پر نہیں،صرف اور صرف بنی نوع انسان پر ٹوٹی ہے۔میں نے اسے آفات کا س رخیل اس لیے قرار دیا ہے کہ اس سے قبل عام طور پر آنے والی آفات از قسم ژالہ باری،سیلاب،سونامی،ب ±ش فائر،زلزلہ اور آتش فشاں پہاڑ کا پھٹنا وغیرہ سب مقامی اور علاقائی حد تک نقصان کا باعث ہوا کرتی تھیں۔ان آفات میں سے کوئی جس گاو ¿ں ،شہر یا ملک پر نازل ہوتی تھی ا ±س کے ن ±قصان کو کم سے کم رکھنے اور انسانیت کی مدد کے لیے دوسرے یعنی محفوظ علاقوں اور م ±لکوں کے لوگ جوق در جوق اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ بر وقت پہنچ جاتے تھے اور یوں متاثرہ علاقوں کے مکین خاصی حد تک محفوظ ہو جاتے تھے۔مگر کرونا وائرس مقامی یا علاقائی نہیں،عالمی وبا بن کر آئی ہے۔
چین کے شہر ووہان سے نمودار ہو کر اس نے دنوں اور ہفتوں میں د ±نیا کے تقریبا سبھی ملکوں کو اس بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی مدد کے لیے نہیں چھوڑا۔مشرق بعید سے مغرب بعید تک یعنی نیوزی لینڈ سے شمالی اور جنوبی امریکہ تک کوئی ملک اس کے دست برد سے محفوظ نہیں رہا۔چند ہفتوں میں ہزاروں لوگ اس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔د ±نیا کے تقریبا تمام ملکوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنی فضائی اور زمینی سرحدیں بند کر دی ہیں۔اور اندرون ملک لاک ڈاﺅن اور کرفیو لگا کر عوام الناس کو گھروں میں محصور کر دیا ہے۔ہر طرح کے کاروباری مراکز،سرکاری دفاتر،شادی ہالوں،تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔انتہا یہ کہ سعودی عرب میں موجود مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں عمرہ،طواف اور نماز پنجگانہ کی ادائیگی پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔گویا کرہ ارض پر موجود پوری انسانیت خوف و ہراس کی کیفیت سے دو چار ہے۔کوئی دوا دارو اس کی روک تھام کے لیے یقینی نہیں۔صرف اور صرف انسانوں کا ایک دوسرے سے دور رہنا ہی اس کا پرہیز اور علاج ہے۔جس کے پیش نظر شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
یہ کیسا مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے ا ±جڑنے میں
ایسے میں د ±نیا بھر کے ڈاکٹر،نرسیں اور دیگر میڈیکل سٹاف مسیحاو ¿ں کی صورت میں دہائی دے رہے ہیں کہ خدارا گھروں میں رہو،ایک دوسرے سے میل جول بند کرو اور با امر مجبوری ملنا پڑے تو بغل گیر ہونا تو در کنار ایک دوسرے سے ہاتھ تک نہ ملاو ¿ کہ یہی اس بیماری کا پرہیز ہے،یہی علاج ہے۔۔مگر اس عذابناک گھڑی میں بھی میری قوم کا باوا آدم نرالا ہے۔وطن عزیز کا ہر شخص اور ہر طبقہءفکر حکیم،پیر کامل اور ڈاکٹر کی صورت میں مسیحا کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ہر کسی کی اپنی اپنی منطق ہے۔اہل ایمان کے نزدیک اس آفت کا شان نزول یہ ہے کہ خ ±دائے بزرگ و برتر ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔اس نے ہم سے سجدوں کی توفیق تک چھین لی ہے۔چنانچہ اس آفت کا واحد حل توبہ و استغفار کی صورت میں اسے راضی کرنا ہے۔
کسی نے آیت کریمہ پانچ کروڑ مرتبہ پڑھنے کے لیے چین(Chain) بنا کر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو بقدر استطاعت حصہ ڈالنے کا فریضہ سونپ دیا ہے،ک ±چھ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہے ہیں اور ک ±چھ اجتماعی د ±عا کے اہتمام میں لگے ہوئے ہیں۔الغرض سارا زور دم درود اور وظیفوں پر ہے۔اور کرتوت یہ ہیں کہ وارداتیوں نے حکومتی کارندوں کا روپ دھار کر سپرے کرنے کے بہانے گھروں کا صفایا کرنا شروع کر دیا ہے۔ہاتھ دھونے والے ڈٹرجنٹ اور عام دواو ¿ں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔سینیٹائزرز بنانے والی جعلی فیکٹری پکڑی گئی ہے جس کے مالک حاجی صاحب محلے کی اصلاحی کمیٹی کے صدر ہیں۔
غذا میں شفا پر یقین رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں پیاز،ادرک،لہسن،ہلدی،سفید زیرہ،کالی مرچ،سونف،سبز الائچی اور ایسی ہی ک ±چھ دیگر اشیا کو کرونا وائرس سے بچاو ¿ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔بندہ ا ±ن کو بتائے کہ نیک بختو! یہ ساری چیزیں تو صدیوں سے ہماری ہانڈیوں کا اٹوٹ انگ ہیں اور ان کے اثرات تو ہمارے آبا و اجداد کے ذریعے ہمارے جینز تک میں آ چکے ہیں۔اب ان کو اور کتنا اور کس طرح کھائیں۔
ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی نصیحت پر عملدرآمد کا یہ عالم ہے کہ دروغ بر گردن راوی، پمز ہسپتال میں داخل کرونا وائرس کے دو مریض اپنے بستروں سے غائب پائے گئے۔تلاش جاری تھی کہ دو گھنٹے بعد وہ خراماں خراماں آتے دکھائی دیے۔پوچھا کہ صاحبو!کدھر غائب تھے؟۔فرمایا، قریبی مسجد میں نماز جمعہ باجماعت پڑھنے گئے تھے۔اب آپ ہی بتائیں کہ آپ لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کیسے رکھ سکتے ہیں۔تاہم حکومتی اقدامات کی پیروی کے تحت مجبورا اگر چند روز گھروں میں بیٹھنا پڑ گیا ہے تو ایسی ایسی جگتیں سننے میںآرہی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ گھر ریل کی بوگی جیسا لگنا شروع ہو گیا ہے کہ واش روم جاو ¿ اور واپس آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جاو ¿۔دوسرے صاحب کہتے ہیں کہ جس روز سے گھر بیٹھ گیا ہوں۔بیگم آتے جاتے با آواز بلند کہہ رہی ہے یا اللہ یہ جو مصیبت گلے پڑ گئی ہے ا ±س سے جلد چھ ±ٹکارا دلا دے۔سمجھ نہیں آتی کہ وہ مصیبت کرونا وائرس کو کہہ رہی ہے یا کہ مجھے۔گھر کے ایک اور قیدی کا کہنا ہے کہ” مجھے زندگی میں پہلی بار پتا چلا ہے کہ صفائی کرتے وقت جھاڑو کے تنکوں کو بکھرنے سے کیسے بچانا ہے اور پوچا ٹاکی لگاتے وقت پانی والی بالٹی میں ڈیٹول ٹائپ محلول فلور کلینر بھی ڈالا جاتا ہے۔” مجھے گھر بیٹھے ایسی کوئی ج ±گت تو نہیں سوجھی البتہ یہ احساس ضرور ہوا ہے کہ مصروفیت انسان کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے۔ملازمت پیشہ لوگوں اور کاروباری حضرات کا اپنے فرائض اور کام کاج کی انجام دہی میں وقت جتنی آسانی سے گ ±زرتا ہے ا ±س کے مقابلے میں گھر فارغ بیٹھ کر وقت گ ±زارنا کتنا مشکل ہے۔
اوپر بیان کردہ تلخ حقائق اپنی جگہ مگر میرا یقین کامل ہے کہ شر کے مقابلے میں خیر کا وجود کسی آڑے وقت میں بھی ختم نہیں ہوا۔اس مش ±کل گھڑی میں ہمارے ڈاکٹر،نرسیں اور دیگر میڈیکل سٹاف اتنی ہی جوانمردی سے اس موذی مرض کے خلاف برسر پیکار ہے جتنے جوش و جذبے سے حالت جنگ میں ہمارے فوجی بھائی سرحدوں پر ڈٹے ہوتے ہیں۔اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایک نوجوان ڈاکٹر ا ±سامہ نے تو اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کر دیا ہے۔اپنے غریب اور نادار ہم وطنوں کی مدد اور داد رسی کے لیے صاحب استطاعت لوگ میدان میں آ گئے ہیں۔بہت سے لوگوں ،خیراتی تنظیموں اور ریستوران مالکان کی جانب سے فی سبیل للہ اشیائے ضرورت کی بے ش ±مار آفرز نظر نواز ہوئی ہیں۔یہاں تک کہ میں نے ایک ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو فٹ پاتھ پر بیٹھے گداگروں کے ہاتھ دھ ±لا کر ان کے آگے کھانا اور پانی کی بوتلیں رکھتے دیکھا ہے۔ایک مخیر خاتون پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ لفافوں میں ڈال کر زیر تعمیر عمارتوں میں کام کرتے مزدوروں میں تقسیم کرتی دکھائی دی ہے۔بے شک یہ ایسے ہی حوصلہ افزا جذبوں کے اظہار کا وقت ہے۔اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ جلد از جلد اس بلائے ناگہانی سے انسانیت کی جان چھڑا کر اس کرہءارض پر پھر سے م ±سرت و شادمانی کو عام کر دے(آمین،ثم آمین)
نوٹ: یہ بلاگر، کالم نگار کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیںہے۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts