نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

متّو ، تبسم مظہر کرونا اور اللہ میاں

متّو ، تبسم مظہر کرونا اوراللہ میاں!


نقطہ نظر۔۔۔۔۔عثمان امجد بھٹی


مِتو،کا اصل نام مطیع اللہ ہے۔ وہ بابے رحمے کا بیٹا ہے۔ اب یہ بھی بتا دوں کہ بابے رحمے کا اصل نا م رحمت اللہ ہے۔ گاو ¿ں میں یہاں تک کہ شہروں میں بھی مزدور ، کسان اور ان پڑھ لوگوں کے نام کچھ اس طرح بگاڑ ے جاتے ہیں کہ اصل نام کے اندر سے ایک تحریف شدہ نام وضع کر لیا جاتا ہے۔ اس کی غالباً ضرورت بھی پیش آتی ہے کہ ان پڑھ اور بہت ہی سادہ ذہن افراد کو پورا نام لینا اور درست ادائیگی کرنا مشکل لگتا ہے۔ جیسے کہ رحمت اللہ کی نسبت رحما کہنا آسان ہے۔
 رحمے کا ح بھی کسان لوگ کہاں اسکے مخرج سے نکالتے ہیں بلکہ اس ح کو تقریباً ی میں بدل دیتے ہیں، رحمے کی بجائے رَیما ( اداکارہ رِ یما نہیں ) پکارتے ہیں۔ اگر آپ بہت پوش علاقے میں نہیں رہتے تو آپکے گرد بھی ایسے بہت سے لوگ ہو نگے۔بابا رحما چوک سے دائیں طرف والی تیسری گلی میں رہتا ہے اور مِتّو اسکا بیٹا ہے۔ متو کی ذہنی نشو نما میں کچھ کمی ہے اور یہ کمی اسکی شکل اور آواز اور گفتگو سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ بولتا وہ بالکل ایسے ہے جیسے اداکار سہیل احمدایک ٹی وی پروگرام میں بھولا بنتا ہے۔ ( میں سہیل احمد کے مشاہدے اور اداکاری کو داد دیتا ہوں ) یہ بھولا ، میرا مطلب ہے متو بھی کبھی کبھی بہت معصوم بات کرتا ہے۔
 میں دفتر سے واپس آ کر شام کو بیٹھک میں بیٹھتا ہوں تو متو بھی آ نکلتا ہے۔ متو پر تو میں ایک افسانہ بھی لکھ سکتا ہوں مگر اس وقت متو نے ایسی بات کی ہے کہ میرا دل ہچکولے کھانے لگا ہے۔ کرونا کے لاک ڈاو ¿ن نے مساجد کی رونق بھی چھین لی ہے۔ آج جمعہ کی اذان ہونے پر کچھ لوگ گھروں سے نکلے تو انہیں یاد آیا کہ مسجد نہیں جانا ( یہ فقرہ ہی دل پر گھونسا مارتا ہے ) جس کو یاد نہ رہا اسے پولیس نے واپس بھیج دیا۔ میں اکیلا بیٹھا تھا اور اداس تھا۔ جمعہ پڑھنے کو مسجد جانے کی اجازت نہ تھی۔ کل سے ایک بات نے دل پر گہرااثر کیا ہوا تھا۔
 میری ایک بہن ہیں تبسم مظہر کہ اس پر باتیں القا ہوتی رہتی ہیں ، کل فون آیا تو کہنے لگیں عثمان تمہیں یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو کسی شرارت یا غلطی پر اماں مارتی تھیں اور ناراض ہو کر گھر سے باہر نکال دیتی تھی۔ ہم باہر بیٹھے روتے رہتے تھے تو اسے رحم آجاتا تھا۔ اور وہ نہ صرف اندر بلا لیتی تھی بلکہ لاڈ بھی کرتی تھی اور کچھ کھانے کو بھی دیتی تھی۔ کہنے لگیں ، عثمان تمہیں ایسا نہیں لگ رہا کہ اللہ نے ناراض ہو کر ہمیں اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔
 مسجد میں آنے سے منع کر دیا ہے۔کہنے لگیں کہ یہ ہے تو دکھ رنج اور ڈر والی بات لیکن مجھے یقین ہے کہ جب ہم دروازے پر بیٹھ کر روئیں گے تو اسکو ہم پر رحم آجائے گا اور ہمیں اندر بلا لے گا اور لاڈ بھی کرے گا۔ بس کل سے دل پر، پر امید سی اداسی چھائی ہوئی تھی اور میں سوچوں میں گم تھا کہ متو چلا آیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور غم کا سایہ تھا۔ سلام کیے بنا ایک کرسی پر چپکے سے بیٹھ رہا۔ بہت دیر ہم دونوں یونہی اپنے اپنے دکھ میں چپکے بیٹھے رہے۔ پھر اچانک متو کرسی سے اٹھ کر اضطرابی کیفیت میں دروازے تک گیا ، پلٹا اور بولا ، پائی جان یہ ہم نے اچھا نہیں کیا۔ میں چونکا ، کچھ دیر غور کیا اور پوچھا کہ متو کیا اچھا نہیں کیا ؟ متو بالکل سہیل احمد کے بھولے کی طرح بولا اور کہا ، ہم مسجد نہیں جا رہے ، کوئی بھی نہیں جا رہا۔ رکا ، سوچا اور پھر بولا ،یہ کوئی یاری تو نہ ہوئی!

نوٹ: یہ بلاگر، کالم نگار کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts