مرغی ،بٹوا اور بچے کا رونا
مرزا جنید اسلم بیگ ۔۔۔۔باتیں من کی
آج میں جب بازار کو جا رہا تھا تو راستے میں ان بچوں کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک دیسی مرغی تھی میں نے موٹر سائیکل کو روک کر کہا کہ یہ دیسی مرغی کتنے پر بیچتے ہو اس لڑکے نے کہا کہ 500روپے پر جب میں نے جیب سے بٹوا نکال کر پیسے دے کر مرغی لی تو ساتھ چھوٹا بچہ رو پڑا میں نے کہا کہ بیٹا کیوں رو رہے ہو تو اسکے بڑے بھائی نے کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے میں حیران رہ گیا اور دل میں عجیب کیفیت محسوس ہوئی میں نے اس چھوٹے بچے کو کہا کہ کیا بات ہے ؟
وہ رو رو کر مرغی کی طرف دیکھ رہا تھا بعد میں بھائی کی طرف دیکھا میں نے اسکے بھائی سے پوچھا کیا بات ہے صاف صاف بتاﺅ اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگا کہ اس نے اس مرغی کو بہت چھوٹا پالا تھا اور خوب انڈے بھی دیتی تھی اب میں مجبوری سے اس کو بیچ رہا ہوں میں نے کہا کہ آپکا والد ہے اس نے کہا کہ نہیں اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے ماں اور ان کا ایک بھائی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے میری ماں سخت بیمار ہے انکا علاج کروانے کے لیے میں نے یہ مرغی بیچنی ہے یہ بات سن کر میرے ہاتھ اور پاوں کانپنے لگے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اس طرح کا منظر میں نے اپنے زندگی میں کھبی بھی نہیں دیکھا تھا۔
No comments:
Post a Comment