لاہور(نوائے درویش رپورٹ) پاکستان رائٹرز کونسل کے زیر اہتمام معروف سخن ور ڈاکٹر اختر شمار کی دو کتب ”جی بسم اللہ اور عاجزانہ “کی تقریب پذیرائی گذشتہ روز ایل ڈی اے سپورٹس کلب، جوہر ٹاو ¿ن، میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت اصغر ندیم سید نے کی۔ تقریب کے مہمانان خصوصی ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر شاہد سرویا، منصور آفاق،سجاد جہانیہ اورمعروف صحافی ندیم نظر اورشہزاد فراموش بھی شامل تھے جبکہ اس موقع پر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر نجیب جمال، غلام حسین ساجد، علی اصغر عباس،زاہد حسن اور افضل عاجز شامل تھے۔ نظامت کی ذمہ داری مرزا یاسین بیگ نے نبھائی۔ تقریب میں جمیل احمد عدیل۔ ڈاکٹر اشفاق ورک،علامہ عبدالستار عاصم، ڈاکٹر جواز جعفری، صابر ظفر،ناز بٹ،سجاد بلوچ، عنبرین صلاح الدین، شیراز الطاف، شریف عابد، مہر شوکت، غلام محی الدین، کاشف نیئر، شہناز نقوی اور عمارہ کنول سمیت تمام شعبہ جات سے بھرپور شرکت تھی۔ جناب سجاد جہانیہ ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل خصوصی طور تشریف لائے اورتقریب کی شان بڑھائی۔
ڈاکٹر اختر شمار کے بارے میں ایسا ہی ہے جیسے سورج کوچراغ دکھانا۔ وہ محکمہ تعلیم پاکستا ن کی طرف سے اردو اینڈ پاک سٹڈیز چیئر پر تقریباً پانچ برس شعبہ اردو جامعہ عین شمس جامعہ الازہر قاہرہ میں تعینات رہ چکے ہیں۔ وہ ایف سی کالج ،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور ، گورنمنٹ ڈگری کالج راوی روڈ، گورنمنٹ کالج دیال سنگھ، لاہور اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج، قصورمیں پڑھاتے رہے ہیں۔وہ 17 اپریل 1960 ، کوپیداہوئے اوران کا اصل نام محمد اعظم خان ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی ۔پنجاب یونیو رسٹی سے ایم۔اے (اردو ) اورپی۔ ایچ۔ڈی کی 1996 میں وہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ادبی جریدے ” بجنگ آمد“ کے مدیر اعلیٰ (اعزازی ) ہونے کے علاوہ روزنامہ نوائے وقت ،روزنامہ پاکستان،روزنامہ خبریں، اور ہفت روزہ ، فیملی میگزین سے بطور ادبی کالم نگار بھی وابستہ رہے۔
ان کی اہم تصانیف میں ، پنجابی ادب رنگ ، 2002، (تحقیق وتنقید ) ، انتخاب جمال 2003ئ، (تنقیدوتحقیق ) ، بھرتری ہری ایک عظیم شاعر 2006ء(تحقیق وتنقید) شامل ہیں جب کہ ان کے شعری مجموعے بعنوانات ،” روشنی کے پھول“ ہائیکو 1984 ئ،”کسی کی آنکھ ہوئے ہم “ غزلیات 1992ئ،”یہ آغاز محبت ہے “ 1994،” ہمیں تیری تمنا ہے “1995ئ، ” اکھیاں دے وچ دل “ 1996ئ،آپ ساکوئی نہیں “ 2001 ،” اورتمھی میری محبت ہو“ 2002ئ، میں شائع ہوچکے ہیں۔
حمدیہ و نعتیہ شاعری میں
”یہ جو ذرّے نے چمک آپ سے لے رکھی ہے“
”رحمتِ باراں سے جب مہکی ہَوَا صلِّ علیٰ“
”سوچتے سوچتے جب سوچ ا ±دھر جاتی ہے“
”آنکھیں سجود میں ہیں تو دِل کا قیام ہے“
شامل ہیں۔

معروف شاعر اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار کی کتاب ”جی بسم اللہ “ میں درویشوں کے حوالے سے لکھی گئی دل کو چھو لینے والی تحریریں شامل ہیں۔ کتا ب کا انتساب باباجی کی محفلوں کے نام کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اختر شمار کی تحریریں انتباہ کا درجہ رکھتی ہیں اور انسان کو خود احتسابی پر مائل کرتی ہیں۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک خود صاحب تحریر کے اندر کسی کی نظر کی ”جاگ“ نہ لگی ہو۔ ظفر سپل کا مفصل مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے جس میں انہوں نے مصنف سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کی ہیں۔ تصوّف سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔ اس کتاب کا موضوعاتی تنوع اسے مقبول عام بنائے گا۔
ڈاکٹر اختر شمارپچھلی تین دہائیوں سے اپنے قلم ،ذہن ، رویے اور علم سے محبتیں تقسیم کررہے ہیں ۔ان کا نظریہ درویشی یہ ہے کہ زندگی ایک نعمت ہے ،ایک موقع ہے ،اپنے آپ کو پہچان کر مقصدیت کے ساتھ زندہ رہنے کا۔ان کی کتاب”جی بسم اللہ “کے مضامین اور متن تو دل آویز و دلنشیں ہیں ہی لیکن کتاب کا نام بھی آنکھوں کی ٹھنڈک ،سکون قلب اور سماعت میں شیرینیاں گھول دیتا ہے ۔جی بسم اللہ گویا اعلان محبت ہے ، درویشوں سے میل ملاقات نے ان کی طبیعت میں عجیب طرح کی بے نیازی اور بانکپن پیداکردیا ہے ۔جی بسم اللہ میں کبھی وہ سیالکوٹ کے تھانیدار سے متعارف کرواتے ہیں جو مرددرویش کی نگاہ کامل کے نتیجے میں کامیابی کا پروانہ پاجاتا ہے ، تھانیدار کی کایا تو پلٹ ہی جاتی ہے لیکن ہمیں بھی یہ قیمتی سبق یادہوجاتا ہے کہ ہم کسی کا بھی دل نہ توڑیں کیونکہ رب تعالیٰ دلوں کے اندر رہتا ہے۔کبھی وہ پردیس کی عید ایک گوشہ نشین کے تکیے پر گزار ،کر، نازاں و فرحاں ہیں ، ڈاکٹر اختر شمار وطن سے ہزاروں میل دور مصر کے ایک پرسکون تکیے پر درویش کی میزبانی ،قہوے ، پیاز کے سالن اور خمیری روٹیوں کے لطف اٹھارہے ہیں جبکہ یارلوگ اپنے معدوں کا جانوروں کا قبرستان بنا چکے تھے۔ملنگوں کے درمیان ایک شام کا حاصل وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے بددل ہیں اس نظام سے لوگ جارہے ہیں دعا سلام سے لوگ۔۔بسم اللہ کادروازہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بادشاہ اور غنی وہ ہے جو قناعت کی دولت پالے ،اگر قناعت نہیں تو محتاجی ہے چاہے بظاہر شاہی کا ہی دعویٰ اور مظاہرہ کیوں نہ ہو۔


































No comments:
Post a Comment