نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

تھیٹر....قصہ گوئی اور لوک تماشے اس کی ابتدائی شکل


چھبیس مارچ کومنائے جانے والے دن کے حوالے سے خصوصی تحریر


آغا حشر بڑے کہانی کار، شاعر اور ڈرامہ نگار تھے، 1929 میں اپنا شاہکار ڈرامہ ’رستم و سہراب‘ لکھا، جس نے مقبولیت
کے ریکارڈ بنائے


برصغیر کی تاریخ میں سٹیج پر پہلا اردو ڈرامہ نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش کیا گیا، جسے آغا حسن امانت نے 1953 میں (اندر سبھا) کے نام سے تحریر کیا



محمدنویداسلم


تھیٹر کی تار ©یخ بہت قدیم ہے۔شیکسپیئر جیسے عظیم ڈرامہ نگار نے بھی تھیٹر کودوام بخشا۔پاکستان میں بھی تھیٹر کاآغاز انتہائی شاندار تھا، آغاحشر کاشمیری اور امتیاز علی تاج نے اس حوالے سے بہت کام کیا۔ڈرامے میں گفتار کی بجائے کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن محض کردار پر مضبوط گرفت ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کی اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، کردار، مرکزی خیال اور نکتہ عروج جیسے فنی لوازم کی یکساں طور پر تکمیل ضروری ہوتی ہے۔
 پاکستان سمیت دنیا بھر میں تھیٹر کا عالمی دن 26مارچ کومنایاجاتا ہے۔اس موقع پر تھیٹر سے وابستہ فنکاراور ادارے خصوصی تقریبات کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مختلف تھیٹر گروپس ملک کے تمام بڑے شہروں میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کریںگے۔ پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کیلئے بھرپور کام کیا جا رہا ہے اگرچہ کمرشل تھیٹر کے باعث تھیٹر کا اصل حسن متاثر ہوا ہے۔ تاہم تھیٹر کے احیاءکیلئے مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈرامے کی ابتدا قدیم زمانے میں رقص و سرود کی محفلوں سے ہوئی جو کسی قبیلے کی فتح یا مذہبی تہوار کے موقع پر منعقد ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ فارس اور مصر میں دیوتاو ¿ں کی پرستش کی خاطر اس قسم کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ڈرامے کو ناقدین فن تین ہزار سال پرانا فن کہتے ہیں۔
تھیٹر کا آغاز قبل از مسیح یونان میں ہوا۔اس وقت یونانی اپنے سورماﺅں کے معرکے چبوترے پرڈرامہ کے انداز میں پیش کرتے تھے۔ فنکار یہاں کامیاب ہو جاتاہے اس کی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں برصغیر پاک و ہند میں تھیٹر کا آغاز پانچ سو سال قبل ہوا ،ہندوستان میں ڈرامے کا رجحان حسن لکھنوی کے دور میں شروع ہوا۔آغا حشر کاشمیری کا نام تھیٹر کے حوالے سے معتبر گردانا جاتاہے ،کلاسک تھیٹر روشناس کرایا اور 6ہزار سکرپٹ کا معاوضہ وصول کیا آج کاتھیٹر غیرمعیاری ہے۔
برصغیر پاک وہند کا خطہ تھیٹر جیسے فن کے لیے ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے۔ قصہ گوئی اور لوک تماشے یہاں اس فن کی ابتدائی شکل تھے۔پاکستان میں تھیٹر بنیادی طور پر دو مکتبہ فکر میں تقسیم ہے۔یہ دونوںآپس میں بحث ومباحثے کے ذریعے دونوں ایک دوسرے کے خلاف اوراپنے حق میں دلائل دیتے نظرآتے ہیں ،مگر دونوں طبقہ فکر میں ایک بات یکساں دکھائی دیتی ہے، وہ تھیٹر سے زیادہ معاشی سطح پر کامیابی حاصل کرنا ہے۔اس لیے کمرشل تھیٹر والے ہوں یا سنجیدہ تھیٹر والے،دونوں وہی انتخاب کرتے ہیں،جس کی بدولت وہ چارپیسے کما سکیں،مگر اس فن میں کئی لوگ اتنے تاک ہوگئے ہیں ،کہ بات چار پیسے کمانے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔
برصغیر کی تاریخ میں سٹیج پر پہلا اردو ڈرامہ نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش کیا گیا، جسے آغا حسن امانت نے 1953 میں (اندر سبھا) کے نام سے تحریر کیا۔ اس سے قبل سنسکرت میں ہندو دھرم سے موسوم کہانیوں پر مبنی رامائن، مہابھارت، کالی داس جیسے کھیل سٹیج کیے جاتے تھے، اردو اسٹیج ڈرامے پیش کرنے میں پارسی سب سے آگے تھے۔ پارسی تھیٹریکل کمپنی آف بمبئی، نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی اور بالی والا تھیٹریکل کمپنی اس دور کے کامیاب تھیٹر مانے جاتے تھے۔
وکٹورین دور کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد انگلستان کا سفر بھی کرتے تھے تو وہاں کے سٹیج ڈراموں پر گہری نظر رکھتے، پھر اردو زبان کو دھیان میں رکھ کر چند مخصوص کردار چن کر برصغیر لاتے، انھیں اردو میں ڈھال کر پیش کرتے، جو خاصے مقبول ہوتے۔ یورپ میں شیکسپیئر کو سٹیج ڈراموں کے حوالے سے جو بام عروج حاصل ہوا، وہ آج تک کوئی حاصل نہ کرسکا۔ ان کے ڈرامے آج بھی شائقین اسی ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ شیکسپیئر کا اپنے کام میں گہرا لگاﺅ ہی تھا جو ساری دنیا کو سٹیج مانتے تھے کہ ہر انسان آتا ہے، اپنا کردار ادا کرتا اور چلا جاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد تک، 1947 میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت، سکھوں کے مظالم اور مہاجرین کے مسائل کے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے جاتے رہے۔ اس ضمن میں منٹو کے تحریر کردہ اور ان سے ماخوذ ڈرامے آج تک سٹیج کیے جاتے ہیں۔ اسی زمانے میں خواجہ معین الدین نے ”لال قلعے سے لالو کھیت تک“، ”تعلیم بالغاں“ اور ”مرزا غالب بندر روڈ پر“ جیسے لازوال ڈرامے سٹیج کے لیے تحریر کیے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، اس کی تاریخ و ثقافت پر انگریز نوآبادیاتی دَور کے اثرات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی ریاست بننے کا خواہاں بھی ہے، ان تینوں جہتوں اور بدلتی ہوئی سماجی اور سیاسی تاریخ کے ساتھ یہ اب تک اپنی اصل ثقافتی تلاش میں سرگرداں رہاہے، جس کا اثر اس کے تھیٹر، ڈرامہ اور دوسری اصنافِ فن پر بھی رہا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد بائیں بازو کی تحریک نے 1960 کے نظریات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں ایک متحرک طلبا تحریک نے ایوب حکومت کا خاتمہ کیا۔ آنے والے برسوں میں پاکستان دو لخت ہونے کے سانحے سے گزرا۔ پھر جمہوریت کا زمانہ آیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ ڈرائنگ روم کلچر کا حصہ تھا نہ ہی پارسی تھیٹر کی باقیات، یہ عوامی کلچر تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کیے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کیے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ اسی زمانے میں سرمد صہبائی اور نجم حسین سید نے ہم عصر تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے تھیٹر پر پہلی بار اوریجنل ڈرامے اور حالات سے مطابقت رکھنے والے کھیل پیش کیے گئے۔ کمال احمد رضوی بھی اس ضمن میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔
برصغیر میں آغا حشر کو اردو زبان کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے، شیکسپیئر کے ڈرامے ’وائٹ بلڈ‘ سے متاثر ہوکر ’سفید خون‘ نامی کھیل تحریر کیا۔ انھوں نے دی بمبئی تھیٹریکل کمپنی میں اپنا لکھا ہوا پہلا کھیل ”مرید شک“ کے نام سے پیش کیا۔ آغا حشر ایک بڑے کہانی کار، شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ 1929 میں اپنا شاہکار ڈرامہ ’رستم و سہراب‘ لکھا، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ مرزا قلیچ بیگ، مولانا ظفرعلی خان، سعادت حسن منٹو اور عبدالحلیم شرر نے بہترین ادبی ڈرامے تحریر کیے۔


















امتیاز علی تاج کا نام اردو تھیٹر ڈراموں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ انھوں نے کالج کے زمانے سے ہی شیکسپیئر سمیت بلند پایہ انگریزی ڈراموں کو اردو میں ترجمے کیے، بعد ازاں انھیں سٹیج پر پیش کیا۔ 1932 میں ’انار کلی‘ کے نام سے ایک کھیل پیش کیا جو اردو سٹیج ڈراموں میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، اسی کھیل نے آگے چل کر مغل اعظم جیسی شاندار کامیاب فلم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ان لوگوں کا جنون و شوق ہی تھا کہ ایک ایسے زمانے میں جب ٹیکنالوجی کے ثمرات نہ تھے، تھیٹر کے کارکن اعلیٰ سے اعلیٰ کام پیش کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔
یہ ان لوگوں کا شوق اور جنون تھا کہ اس زمانے میں جب کہ جدید ٹیکنالوجی کے ثمرات موجود نہ تھے، ایسے ڈرامے پیش کیے۔ ان ڈراموں کی کامیابی کے لیے انتھک محنت اور دماغ کام کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی تھیٹر کی دنیا میں دونوں ملکوں کے معیار پر کوئی خاصہ فرق نہیں آیا تھا۔ اسی طرز کی کہانیوں اور کلچر کو کھیل میں پیش کیا جاتا تھا۔ پھر آزادی کے بعد چھوٹے چھوٹے تھیٹریکل گروپوں کی تشکیل کا دور شروع ہوا۔
 80کی ہی دہائی میں کراچی میں دستک اور تحریک نسواں نے بھی فوجی آمریت کے خلاف ڈرامے پیش کیے۔ چوں کہ کوئی باضابطہ فورم موجود نہ تھا اس لیے 1980 کی تمام تھیٹر سرگرمیاں انفرادی کمٹمنٹ پر منحصر تھیں، جس کا جذبہ آج کے تھیٹر میں بھی موجود ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سماجی، سیاسی، معاشی بلکہ ہر پابندی سے آزاد کالج یونیورسٹی کے سٹیج ڈرامے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔پرائیویٹ پروڈکشن کمپنیوں نے تھیٹر کو پروفیشنل اور کمرشل رخ دیا ہے تاکہ اسے پاکستانی ثقافت میں معمول کا حصہ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں تھیٹر کے تربیتی اداروں کی بھی کمی ہے۔ واحد پرفارمنگ آرٹس اکیڈمی NAPA ہے جو کراچی میں ضیا محی الدین کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ اس کا مقصد ملک بھر کے ٹیلنٹ کو سامنے لانا اور فروغ دینا ہے۔ یہاں تھیٹر ڈرامہ کے ساتھ ساتھ موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
1980 میں عمر شریف نے جب سٹیج کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ چھا گئے۔ معین اختر کے بعد پاکستان کو دوسرا حاضر جواب مزاح نگار ملا۔ بڈھا گھر پر ہے، بکرا قسطوں پر، ان کے کامیاب سٹیج ڈرامے رہے جبکہ پنجابی سٹیج ڈراموں میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تو سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا پھر تھیٹر کمرشل میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اعلی درجے کی کردار نگاری، کہانی ڈائیلاگز، سب پر زندگی کی ضرورتیں حاوی ہوتی گئیں۔ایک فنکار جو سب کو ہنسانے کے لئے سٹیج پر کھڑا ہے اس کے اپنے حالات کیا، اس کے گھر کے حالات کیا ہیں، وہ اندر سے کتنا پریشان ہے، ان سب چیزوں کے ساتھ کم معاوضے نے سٹیج کا جغرافیہ ہی تبدیل کر دیا۔شائستگی کی جگہ ڈانس اور خراب زبان نے لے لی۔ اب سٹیج ڈرامے فیملی تفریح کے لائق نہیں رہے۔ دو دہائی تک اس پر جمود طاری رہا۔ البتہ سٹیج ڈراموں کے سنجیدہ افراد نے اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش ضرور کی۔ سابقہ ادوار میں کنگلے پرونے، شرطیہ میٹھے، کالی چادر، کچھ نہ کہواور کوٹھا جیسے ڈراموں نے جو عروج حاصل کیا ویسا عروج تاحال کوئی ڈرامہ حاصل نہیں کر سکا۔ بلھا، دارا شکوہ، سوا چودہ اگست، پونے چودہ اگست، آنگن ٹیڑھا، سوشل پاگل اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ معیاری تھیٹر دیکھنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کی یہ بھی کوشش ہے کہ معیاری کام کرتے ہوئے نہ صرف شائقین تھیٹر کو مطمئن کیا جائے بلکہ ڈرامے کا اصل مقصد بھی لوگوں تک پہنچے۔
تھیٹر کی دوسری قسم ”سنجیدہ تھیٹر“کی ہے،جس میں مختلف ادوار میں کئی لوگوں نے کام کیا اور ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔اس قسم کے تھیٹر والوں کا خیال ہے کہ انھوں نے مقصدیت کے تحت تھیٹر کے فن کو بطور ہنر استعمال کیا اور”کمرشل تھیٹر “کو وہ اس فن کا حصہ نہیں مانتے۔قیام پاکستان کے بعد اس طرز کے تھیٹر کے فروغ میں ریڈیوکے ڈرامے نے بنیادی کردار ادا کیا،پھرٹیلی ویڑن نے بھی اس کے رجحان میں اضافہ کیا۔ان دونوں میڈیم سے کئی اداکار ”سنجیدہ تھیٹر“کی طرف گئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
سنجیدہ تھیٹر والوں کی ساری محنت آرٹ فلمیں لے اڑتی ہیں،مگر وہ پھر بھی کسی حد تک اپنا کام کررہے ہیں۔ کراچی میں قائم نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس اس کی ایک واحد مثال ہے،جس نے تھیٹر کو اس کی حقیقی صورت میں پیش کرنے کی سعی کی اورکر رہا ہے،لیکن شاید اس کا یہی جرم ہے کہ دنیا کے اعلیٰ لکھنے والوں کی کہانیوں پر کئی کئی مہینوں کی ریاضت کے بعد جب وہ کھیل سٹیج کیا جاتا ہے،تو ہال کی کافی کرسیاں خالی رہ جاتی ہیں۔سنجیدہ تھیٹر کے فروغ کے لیے صرف تھیٹر کرنا ہی ضروری نہیں، بلکہ ہمارا سنجیدہ ہونا بھی ضروری ہے،مگر کیا ہم اس فن کے احیا میں سنجیدہ ہیں ؟
مغربی دنیا میں تھیٹر ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ہالی وڈ کے متعدد فنکار تھیٹر کی تربیت لینے کے بعد فلمی صنعت میں داخل ہوتے ہیں،کیونکہ یہ ایک ایسا میڈیم ہے،جس میں روز نئے سرے سے آپ کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے بنا کسی غلطی کے،مگر اتنی ریاضت ہمارے ہاں کون کرنا چاہے گا،جب یہ بھی پتا ہوکہ سنجیدہ تھیٹر کے لیے تو ہاﺅس بھی فل نہیں ہوتا۔بھارت میں بھی تھیٹر کی اہمیت برقرار ہے۔ان کی فلمی صنعت مکمل طور پر گلیمر کی چکاچوند سے منور ہے،لیکن اس کے باوجود وہاں نصیرالدین شاہ، اوم پوری، عرفان خان، نواز الدین صدیقی جیسے اداکار موجود ہیں،جن کا پس منظر تھیٹر کا ہی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی فلمی صنعت میں اپنا نام بنایا۔ پاکستان کو پھر سے اچھے اور معیاری تھیٹر کی ضرورت ہے،جس کے ذریعے سے نہ صرف ایک تفریح کے بہترین میڈیم کو زندہ رکھا جائے، بلکہ اس میڈیم کے ذریعے ہمارے معاشرے کے مسائل کی عکاسی بھی کی جائے۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts