نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے


چاراپریل۔۔ ایک سیاہ دن



جب ایک منتخب وزیر اعظم کوپھانسی دی گئی

محمدنویداسلم



4 اپریل 1979ءپاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے حکم پر ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اسی دن رات کے آخری پہر راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی، بھٹو تو دنیا سے رخصت ہوئے مگر سیاسی میدان بھٹوکے حامیوں اور مخالفین میں بٹ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کوروٹی ، کپڑااور مکان“ کا نعرہ دیا تھا۔ ان کے نزدیک اس وقت قوم کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو ان کو”روٹی، کپڑااور مکان“ دے سکے۔یہ وہی ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوںنے ملک کو نہ صرف پہلا متفقہ آئین دیا بلکہ ان کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو بھی آج تک ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے … ذوالفقار علی بھٹو جیسے جنوبی ایشیا کے عظیم انقلابی رہنما اور دنیا بھر بالخصوص مسلم دنیا کے سربراہان مملکت خاص محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے…ایک دور تھا جب بھٹو کا ہیئرسٹائل مقبول ہوا تھا۔ پاکستان کے نوجوان بھٹو کٹ میں اکثر دیکھنے کو ملتے تھے۔ بھٹو کے لاکھوں کارکن تھے جن کو جیالوں کا نام دیا گیا۔بھٹو نے انقلاب غریبوں کے لیے کا نعرہ لگایا اور غریبوں کی بے پناہ محبت پائی۔کسان کا قائد بھٹو ہے ،مزدور کا قائد بھٹو ہے ،غریبوں کا قائد بھٹو ہے کے نعروں سے ملک گونج اٹھا۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔پاکستان میں آپ کو قائد عوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔












 1953میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔1958 تا 1960 صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت ، 1960 تا 1962 وزیر اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات ، 1962 تا 1965 وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963تا جون 1966 وزیر خارجہ رہے۔ دسمبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
1966جنوری کی دس تاریخ کو صدر ایوب سے پہلا اختلاف ہوا جس نے بعد میں ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ 10 جنوری 1966 میں معاہدہ تاشقند سے اختلاف کیا پانچ ماہ بعد اور 10 جون 1966 کو ایوب کابینہ سے استعفیٰ دیا۔پہلے تو انہوں نے معاہدہ تاشقند پر صرف اختلاف کیا تھا لیکن جب ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔30 نومبر 1967کو اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی جن میں ذوالفقار علی بھٹو،جے اے رحیم ، محمد حنیف رامے اورڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے۔بھٹو نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا۔لیکن وہ غریبوں کے حق میں انقلاب نہیں لا سکے یا ان کو لانے نہیں دیا گیا ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں
۔لیکن ہاں وہ غریبوں کو جگا ضرو ر گئے۔ان کو ان کے حقوق سے آگاہ ضرور کر گئے۔ وہ جب تک زندہ رہے پارٹی میں الیکشن نہیں کرواے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصول تھے۔اسلام ہمارا دین ہے۔جمہوریت ہماری سیاست ہے۔سوشلزم ہماری معیشت ہے۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ایک سوال تھا کہ ایک نئی پارٹی کیوں ضروری ہے ؟اس کا جواب یہ تھا کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے مکمل اتحاد سے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیادیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر استوار کی جائیں گی اور ہماری سیاسی ،معاشی،اور سماجی زندگی اسلام کے دینی و دنیوی اصولوں کی قوت سے رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ بھٹو صاحب نے دن رات محنت کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔
 1970 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1971 میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔ وہ دسمبر 1971تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائزرہے۔
  اگست 1973 کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
1977 کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ ستمبر 1977 میں بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 18 مارچ 1978کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ بھٹو کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ قومی جماعت تھی آج صرف سندھ تک سمٹ گئی ہے۔مفاہمت کی سیاست کے لیے پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی بلکہ غریبوں کے حق کے ا?واز بلند کرنے ان کے حقوق دلانے کے لیے۔روٹی ،کپڑا اور مکان۔ایک انسان کی بنیادی ضروریات کا نعرہ لگایا گیا جس نے بے پناہ مقبولیت پائی۔
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بے انتہا ذہانت،اعلیٰ سیاسی بصیرت،لاجواب تدبر اور دو طرفہ تعلقات کے امور کے ماہر تھے، وہ ابتدا ہی سے ایشیائی امور میں مغرب کی مداخلت کے کڑے مخالفوں میں سے ایک تھے، بھٹو ”سامراج“ کے خاتمے،اقتصادی آزادی اور خودکفالت کے حامی اور زندگی بھر اس موقف کے زبردست داعی رہے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کی جائے،بھٹو کہتے تھے ”نوآبادیاتی دور ختم ہورہا ہے،اب ایشیا اور افریقہ میں نئی طاقتیں ابھر چکی ہیں،ایشیائی قیادت کے سامنے بنیادی مسئلہ ان کی خود مختاری کے چیلنج کا ہے،مغرب میں ایشیائی قیادت کو جس دن برابری اور مساوات کی بنیاد پر تسلیم کرلیا گیا اس دن عالمی امن کے تقاضے پورے ہوجائیں گے“۔ اپنی اسی انقلابی فکر کی وجہ سے وہ زندگی بھر سامراجی حلقوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔
1963 میں وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر جان کینیڈی کی پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں امریکی صدر بھٹو کی ذہانت اور وسعت علمی سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھٹو سے کہا کہ ”اگر آپ امریکن ہوتے تو میری کابینہ میں وزیر ہوتے “ بھٹو نے برجستہ جواب دیا ”مسٹر پریذیڈنٹ محتاط رہیں اگر میں امریکی ہوتا تو آپ کی جگہ ہوتا۔“
بھٹو پاکستان کی پہلی شخصیت تھے جن کی سوچ اور فکر کے منفرد،انقلابی اور تخلیقی انداز نے ایشیائی سیاست میں انقلاب آفریں تبدیلیاں پیدا کیں،افریشائی اتحاد،پاک بھارت تعلقات اور پاک چین دوستی کے متعلق بھٹو صاحب کا انداز فکر و عمل عالمی سامراج کے مقاصد کیلئے زہر ِ قاتل ثابت ہوا،جس کی وجہ سے انہیں جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی پالیسیوں کے تسلسل میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،اِسی وجہ سے بھٹو صاحب کو کئی بار خریدنے کی بھی کوشش کی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے38 برس گزر چکے ہیں، لیکن قوم کے دل و دماغ ان کی یادوں سے آج بھی ترو تازہ ہیں۔ان کوفراموش نہیں کیاجاسکتا۔
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں




Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts