نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

حکومت کوپرائیویٹ سکولوں کیساتھ مل کرمسائل حل کرنے چاہئیں،ماہر تعلیم وسیم عبدالکریم



حکومت کوپرائیویٹ سکولوں کیساتھ مل کرمسائل حل کرنے چاہئیں،ماہر تعلیم وسیم عبدالکریم







٭.... بڑی بہن کی وجہ سے مجھے استاد بننے کا خیال آیا، انہوں نے مجھے باور کرایا کہ میرے اندر ایک انتہائی شفیق استاد موجود ہے ٭.... تعلیمی میدان میں این ڈی سکول اچھرہ کے پرنسپل سر عبدالرﺅف میرے آئیڈیل ہیں،انہوں نے ہی میرے سکول کانام تجویز کیا تھا اور ابتدائی دنوں میں میری بہت مدد کی٭....بینکنگ سیکٹر چھوڑ کر تعلیم کے میدان میں قدم رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اے بی این ایمرو بینک میں سیلز ایگزیکٹو تھا، دوہزار آٹھ کے بعد ملکی حالات کی وجہ سے استعفی دے کر پڑھانا شروع کردیا٭....میں نے اپنے گھر میں تعلیمی ادارہ شروع کیا، وہ ایک چھوٹا سا ٹیوشن سنٹر تھا۔ اس میںمیرا ساتھ میرے کزن عدنان ارشد نے دیا۔ ہم دونوں نے بہت محنت کی ۔ عدنان کے بیرون ملک جانے کے بعد میں نے اس اکیڈمی کوآگے چلایا اور اب یہ درخت سکول کی صورت میں پھل پھول رہا ہے ٭....نجی تعلیمی ادارے واقعی بہت لوٹ مار کررہے ہیں،میرا تعلق چونکہ متوسط علاقے سے ہے اسی وجہ سے میں اس علاقے کے لوگوں کی خدمت کررہا ہوں، اور ان کے بچوں کوپڑھا رہا ہوں،مجھے کسی چیز کا لالچ نہیں ہے٭....میں دلی طور پر میاں اسلم اقبال صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ ان کو ہم نے جب کبھی کسی بھی جگہ یاد کیا تو وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کرہمارے پاس آتے ہیں اور ہمیں خاصا وقت دیتے ہیں٭....میں نے جب2009 میں سکول بنایا تو میرے دوست ذیشان صاحب مجھے فپس کی طرف لے آئے، میںجلد ہی اس نجی تنظیم کا جنرل سیکریٹری بن گیا،ہم نے اچھرہ کے نجی تعلیمی اداروں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہوا ہے اور اس کے تحت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں


انٹرویو: نوائے درویش


تعلیم کوکاروبار نہیں بلکہ ایک مشن کے تحت چلانے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔چھوٹی سی گلی سے ٹیوشن سنٹر کے بعد ایک اچھا تعلیمی ادارہ بنانا بہت مشکل کام ہوتا ہے ، اس کے لئے سالہا سال کی محنت ہوتی ہے۔تعلیم کوانبیاءکرام کا پیشہ مان کر چلنے والے ایک محنتی نوجوان جنہوں نے پہلے خود مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی اور پھراپنے جیسے بہت سے بچوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کےلئے کوشاں ہوگئے۔ماہر تعلیم وسیم عبدالکریم نے نوائے درویش.بلاگ پوسٹ. کام سے اپنی جدوجہد کا تذکرہ کیا جوویب سائیٹ پر اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔
س:سب سے پہلے اپنا مکمل تعارف کروائیں؟
ج: میرا نام وسیم عبدالکریم ہے،میر ا تعلق اچھرہ کی کمبوہ برادری سے ہے۔میرے آباﺅ اجداد کا تعلق اسی جگہ سے ہے ہم لوگ کافی عرصے سے اس علاقے میںمقیم ہیں
س: تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج: میں نے این ڈی سکول اچھرہ سے میٹرک کیا۔اس کے بعد وحدت روڈ سائنس کالج سے بی اے کیا، اکنامکس میں دلچسپی کی وجہ سے اس مضمون میں ایم اے کیا۔
س:کب سوچا کہ آپ کے اندر ایک استاد ہے اور آپ کو اس میدان میں آنا چاہئے؟
ج:میری بڑی بہن کی وجہ سے مجھے استاد بننے کا خیال آیا۔ انہوں نے مجھے درس وتدریس کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے مجھے باور کرایا کہ میرے اندر ایک انتہائی شفیق استاد موجود ہے لہذا مجھے اس میدان کی طرف آنا چاہئے۔
س:تعلیم کے میدان میں آئیڈیل کون ہے؟
ج: تعلیمی میدان میں اپنے آئیڈیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعلیمی میدان میں این ڈی سکول اچھرہ کے پرنسپل سر عبدالرﺅف میرے آئیڈیل ہیں۔انہوں نے ہی میرے سکول کانام تجویز کیا تھا اور ابتدائی دنوں میں میری بہت مدد کی۔
س:والد کا سایہ سر پر نہ ہو تو بڑی مشکلات ہوتی ہیں، کچھ تذکرہ کریںگے؟
ج: والد کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ میں بہت چھوٹا تھا غالبا فرسٹ ایئر کی بات ہے اس وقت والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ میںنے اس کے بعد بہت محنت کی اور پھروالدہ، بہن کی دعائیںبھی تو ساتھ تھیں ۔ میں ان کی دعاﺅں کے سہارے آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔




س:پڑھانے میں دلچسپی کب شروع ہوئی؟
ج:پڑھانے میں دلچسپی کب شروع ہوئی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ1998 کی بات ہے اور میں اس وقت فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔
س:آپ ایک بینکر تھے اور اچھی خاصی نوکری تھی ، لیکن پھراچانک اس طرف کیسے آنا ہوا؟
ج:بینکنگ سیکٹر چھوڑ کر تعلیم کے میدان میںقدم رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اے بی این ایمرو بینک میں سیلز ایگزیکٹو تھا، دوہزار آٹھ کے بعد ملکی حالات کی وجہ سے استعفی دے کر پڑھانا شروع کردیا۔
س: آپ نے ایک چھوٹی سے گلی سے تعلیمی ادارہ شروع کیا جو ٹیوشن سنٹر تھا بعد میں ایک اکیڈمی اور سکول بن گیا اس جدوجہد کے بارے میں بتائیں؟
ج:میں نے ایک گلی میں اپنے گھر میں تعلیمی ادارہ شروع کیا، وہ ایک چھوٹا سا ٹیوشن سنٹر تھا۔ اس میں میرا ساتھ میرے کزن عدنان ارشد نے دیا۔ ہم دونوں نے بہت محنت کی اوردن رات ایک کردیا۔ شروع شروع میں لوگوں نے بہت باتیں کی لیکن ہم نے صرف محنت کوشعار بنایا۔ عدنان کے بیرون ملک جانے کے بعد میں نے اس اکیڈمی کوآگے چلایا اور اب یہ درخت سکول کی صورت میں پھل پھول رہا ہے ۔میں نے دوہزار نو میں سٹڈی پیلس سکول قائم کیا۔
س:متوسط علاقے سے تعلق ہونے کے باوجود آپ نے اس علاقے میں اپنی پہچان بنائی، لوگوں کوکس طرح قائل کیا؟
ج:علاقے میں اپنی پہچان جلد بننے کی وجہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کی مہربانی اور والدین کی دعاﺅں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوسکا۔ میرا اخلاق اچھا تھا اسی وجہ سے لوگ میرے ساتھ جڑتے گئے اور میں ان کے خاندان کے فرد کی حیثیت اختیار کرگیا۔
س: آپ کے نزدیک تعلیم ایک فلاح اور مشن ہے،کچھ مزید اس بارے میں بتائیں؟
ج:تعلیم ایک فلاح اور مشن ہے کے بارے میں بات کرتے ہوئیے انہوں نے کہا کہ یہ انبیاءکا پیشہ ہے،اللہ کریم نے مجھے اس طرف لگایا۔ میں دعا گو رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی مزید توفیق دے اور مجھے والدین اور اللہ کے سامنے سرخرو کرے۔
س:نجی تعلیمی ادارے لوٹ مار کررہے ہیں،کیا آپ کواس سے اتفاق ہے لیکن آپ نے اپنا ادارہ فلاحی مشن کے تحت کھولا ہوا ہے،اخراجات کیسے پورے ہورہے ہیں؟
ج: نجی تعلیمی ادارے واقعی بہت لوٹ مار کررہے ہیں،میرا تعلق چونکہ متوسط علاقے سے ہے اسی وجہ سے میں اس علاقے کے لوگوں کی خدمت کررہا ہوں، اور ان کے بچوں کوپڑھا رہا ہوں۔مجھے کسی چیز کا لالچ نہیں ہے۔اخراجات پورے کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اخراجات پورے کرنا تو اللہ کا کام ہے اسی وجہ سے میں نے اس بارے میں کبھی نہیں سوچا، سلسلہ چلانے والی اللہ کی ذات ہے۔
س:نجی تعلیمی اداروں کومزید بہتر کرنے کے لئے حکومت کوکیا کرنا چاہئے؟
ج:نجی تعلیمی اداروں کومزید بہتر کرنے کے لئے حکومت کوہمارے ساتھ مل کر مسائل حل کرنے چاہئیں،حکو مت کوہماری تجاویز پر غور کرنا چاہئے اور ہم پر جوباتیں مسلط کی جارہی ہیں اس میں چھوٹ دینی چاہئے تاکہ ہم اپنا کام بہترین طریقے سے کرسکیں۔
س:پولیو ڈے، ڈینگی ڈے وغیرہ وغیرہ، ٹیموں کی بار بار چیکنگ کی وجہ سے کبھی پریشانی ہوئی اور اس کے لئے یوسی آفس میںجاکر یاٹاﺅن آفس میں جاکر کوئی اقدامات کئے تاکہ پرائیویٹ سکولز کوپریشانی نہ ہو؟
ج:پولیو ٹیمیں، ڈینگی ٹیمیں جب بار بار آتی ہیں تو ہمارے سٹاف کوتھوڑی پریشانی ہوتی ہے لیکن اس کے لئے ہم نے ٹاﺅن آفس میں میاں طارق صاحب سے باقاعدہ ملاقات کی تھی اور ان کواپنا مسئلہ بیان کیا انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
س:سیاست میں دلچسپی ہے؟
ج: مجھے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ،ہمارے خاندان کے بہت سے لوگ اگرچہ مقامی سیاست میں ہیں لیکن میرے سب سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میںدلی طور پر میاں اسلم اقبال صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ ان کو ہم نے
جب کبھی کسی بھی جگہ یاد کیا تو وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کرہمارے پاس آئے اور ہمیں خاصا وقت دیا۔



س:حکومت کا پانچویں اور آٹھویں تک یکساں نصاب کے فیصلے کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:انہوں نے یکساں نصاب کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ میںاس کے حق میں نہیں ہوں لیکن میں والدین کویہ ضرور کہوںگا کہ وہ اپنے بچوںکوبہترین تعلیم دلانے کی طرف توجہ دیں۔
س: آپ ایک نجی تنظیمFUPS(فاﺅنڈیشن اپ لفٹ فار پرائیویٹ سکولز ایجوکیشن) کے جنرل سیکریٹری ہیں، اس طرف کب اور کس طرح آئے؟
ج:میں نے جب2009 میں سکول بنایا تو میرے دوست ذیشان صاحب مجھے اس طرف لے آئے۔میںجلد ہی اس نجی تنظیم کا جنرل سیکریٹری بن گیا۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں سب کوجوڑ کر رکھوں۔میں نے کم وقت میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔


س: اس تنظیم کا ایجنڈا کیا ہے؟
ج:ہماری تنظیم کا ایجنڈا تعلیم کوفروغ دینا ہے۔ ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ہم نے اچھرہ کے نجی تعلیمی اداروں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہوا ہے اور اس کے تحت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
س:آپ اس عہدے پر رہ کر علاقے کے پرائیویٹ سکولوں کے لئے کیا اقدامات کررہے ہیں؟
ج:میں فپس کا جنرل سیکریٹری ہونے کی حیثیت سے اچھرہ کے سکولوں کے پرنسپلز سے باقاعدہ ملتا ہوںاور ہم ماہانہ میٹنگزمنعقد کرتے ہیں اور اپنے مسائل کو ڈسکس کرتے ہیں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی سکول کا کوئی مسئلہ ہو تو اس کوسب مل بیٹھ کرحل کریں ۔
س:بچپن کا کوئی یادگارواقع بتائیں؟
ج:انہوں نے بچپن کے یادگار واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو بہت سے ہیں لیکن میں بس اتنا شیئر کروں گاکہ میں نے ہمیشہ محنت کوعظمت سمجھا اور اس سے کبھی جی نہیں چرایا اور آج بھی اس پر کاربند ہوں۔
س: مستقبل کے عزائم کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:انہوں نے مستقبل کے عزائم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا مستقبل کا عزم ہے کہ میری اپنی شاندار بلڈنگ ہو اوراس کے لئے محنت کررہے ہیں کیونکہ یہ ایک فلاحی ادارہ ہے لیکن کرائے کے مسئلے کی وجہ سے اکثر پریشانی ہوتی ہے۔
س:کیا کبھی سوچا ہے کہ اگر بینکنگ سیکٹر نہ چھوڑتے تو بہت آگے ہوتے اور تعلیم کے میدان میں جگہ بنانا مشکل ہے کیونکہ برانڈز اپنی جگہ بنارہے ہیں؟
ج:بینکنگ سیکٹر چھوڑنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے اس بارے میں کبھی نہیں سوچا کیونکہ میرے نزدیک میں اس فیلڈ میں بالکل سیٹ ہوںاور اللہ کا فضل ہے، میں فلاح کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کررہا ہوں۔باقی رہی بات برانڈز کی تو میںیہ کہوںگا کہ برانڈز پیسے سے آتا ہے اور پیسہ محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ہمارا نجی تعلیمی ادارہ محنت سے جگہ بنارہا ہے۔میرا سکول میری والدہ کی دعاﺅں سے پھل پھول رہا ہے۔ وہ ہر سال پرائز ڈسٹری بیوشن تقریب میں موجود ہوتی ہیںاور تقریب کا آغاز ان ہی کے انعام دینے سے ہوتا ہے۔یہ رونقیں ان ہی کے دم سے ہیں۔ اللہ ان کومزید صحت وتندرستی عطا کرے آمین۔
س:نجی زندگی کے بارے میں بتائیں شادی کب ہوئی؟
ج:نجی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری شادی دوہزار تیرہ میں ہوئی تھی،یہ ارینج میریج تھی اور میں نے والدہ کی مرضی سے شادی کی۔میں انتہائی خوش وخرم زندگی گزار رہاہوں۔میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ مجھے عمرہ کی سعادت ملی اور سب سے بڑی بات کہ میری عید مدینہ منورہ میں ہوئی جوبہت خوشی اور سعادت کی بات ہے۔
س:والدین کے نام بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کیا پیغام دیں گے؟

ج: والدین کے نام بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پیغام میں انہوں نے کہا کہ والدین بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے ساتھ دوستانہ رہتے ہوئے ان کی تربیت کریں۔میںنے پاکستان میں تعلیم کے لئے کام کرنا ہے اور علاقے میں مزید نام پیدا کرنا ہے،اللہ کریم پاکستان کی حفاظت کرے ۔ہم اپنے بچوںکواس وطن کی حفاظت کا بھی درس دیتے ہیں۔یہ ننھے پھول کلیاں یوں ہی مہکتے اورمسکراتے رہیں۔









Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts