نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

کتاب دوستی،سجادجہانیہ اور”ادھوری کہانیاں“




نوائے درویش
محمدنویداسلم



تہذیبوں کے نشیب و فراز پر نظر ڈالیں تو عیاں ہوتا ہے کہ کتاب زندگی کے حقائق کو جاننے اور اس جانکاری کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ کتاب ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے پہلی نسلوں کی محنت و کاوش، حکمت و بصیرت نئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے ،جو قوم معیاری اور عمدہ کتابیں لکھنے، شائع کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہو، وہ نہ صرف پسماندہ و جاہل، بلکہ غیروں کی دست نگر ہو کر رہ جاتی ہے۔ کتاب محض دل نشیں لفظوں اور خوبصورت کاغذ کا امتزاج ہی نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں اور رہبروں کی زندگی کے کٹھن تجربات کی عکاس بھی ہوتی ہے۔ ہم ان کے ماضی تجربات کو حالات کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنے مستقبل کو سنوارتے ہیں۔ مگر آج کا نوجوان بزرگوں کے ان تجربات کو پڑھ کر سیکھنے کے بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کھوگیاہے۔صاحبو درویش نے اس وقت ”ادھوری کہانیوں“ کا تذکرہ کرنا ہے جو سجاد جہانیہ کی تخلیق ہے،سجاد جہانیہ جو کسی تعارف کے محتاج نہیںہیں۔ان کو کتاب دوستی، قلم قبیلے اورشعبہ صحافت کے تقریبا سبھی لوگ بخوبی جانتے ہیں۔درویش کی ان سے باضابطہ ملاقات تو نہیں لیکن خبریں کے ایڈیٹوریل پیج کی وجہ سے غائبانہ تعارف ہے۔علاوہ ازیں” خبریں“ کے بہت سے سینئرز بھی اکثر وبیشتر ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ان کی حال ہی میں تصنیف”ادھوری کہانیاں“ ہے۔میرا ان سے ایک تعلق کی وجہ مرزا یاسین بیگ صاحب بھی ہیں۔ وہ الفت ،محبت،خلوص کا پیکر مجسم ہیں۔

بات ہورہی تھی سجاد جہانیہ کی، سجاد جہانیہ ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے”ادھوری کہانیوں“ کے ذرریعے
 ہمیں ایسے لوگوں سے ملوایا ہے جو بظاہر عام لیکن درحقیقت بہت خاص ہیں۔ملتان کی مٹی کی خوشبومیں صوفی ازم کا جادو ہے، یہی رنگ سجاد جہانیہ صاحب کی تحریر میں بھی نظرآتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب”ادھوری کہانیاں“ کی تقریب رونمائی پروقار طریقے سے ای لائبریری لاہور میں منعقد کی گئی۔ جس کی صدارت جناب عطاءالحق قاسمی نے کی۔ جبکہ مہمانان خصوصی میں جناب مجیب الرحمن شامی، جناب ملک احمد خاں، جناب عطا الرحمن، جناب علی اصغر عباس، جناب سعود عثمانی،جناب گل نوخیز اختر، جناب افضل عاجز، جناب راشد محمود،معروف صحافی ندیم نظر صاحب، جناب ناصر خاں اور جناب اقبال خاں منج صاحب شامل تھے۔




 اس تقریب کو ادبی و صحافی شخصیات نے چار چاند لگائے۔
عطاءالحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”گل نوخیز مجھے بتا رہا تھا کہ سجاد جہانیہ اور وہ بچپن میں بچوں کے اخبارات میں کہانیاں لکھا کرتے تھے اور تب بھی سجاد جہانیہ کی تحریریں انتہائی شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں جو لکھاری بچوں کے رسائل سے اوپر آئے ہیں ان کی تحریروں میں پختگی دور سے ہی نظر آ جاتی ہے ورنہ آج کل تو یہ حال ہے کہ میرا ایک دوست جس کی عمر 60سال سے تجاوز کر چکی ہے اب کالم نگار بننا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سے پہلے اس نے کچھ نہیں لکھا لیکن اب وہ باقاعدگی سے کالم لکھنا چاہتا لہٰذا اس کا کالم کسی قومی سطح کے روزنامہ میں شروع کرایا جائے اور سات آٹھ لاکھ تک معاوضہ دیا جائے۔ میں نے اس پر قہقہہ لگایا تو اس نے کمال مہربانی سے معاوضے میں 30فیصد کمی کی پیشکش کر دی۔ سجاد جہانیہ کی کتاب پڑھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا یہ نوجوان ابھی میری طرح ناسٹیلجیا کا عاشق ہے۔ مجھے بھی امرتسر، وزیر آباد، ماڈل ٹاﺅن اور اقبال ٹاﺅن کا ذکر خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سجاد جہانیہ کو بھی ماضی سے عشق ہے کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ یہ ماضی سے نکلتے نکلتے دوسرے ماضی میں پھنس جاتا ہے۔ یہ ماضی بہت شاندار ہے۔ اس میں کلاس فیلوز ہیں، بچپن کے دوست ہیں، لڑائیاں ہیں، جھگڑے ہیں، قصے ہیں اور مجنوں کی داستانیں ہیں۔ میں سجاد جہانیہ کو ان کی کتاب پر بھرپور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان رائٹرز کونسل کے مرزا یاسین بیگ اور الطاف احمد کو بھی مبارک دیتا ہوں یہ نوجوان ادبی فنکشنوں کے گرو بن چکے ہیں اور اتنی شاندار تقریبات کرواتے ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔“
ڈاکٹر اختر شمار کے مطابق” سجاد جہانیہ ایک بہترین داستان گو ہیں یہی نہیں وہ لفظوں سے تصویریں بناکر لہو میں گھول دینے پر قادر ہیں۔ میں نے کسی حدتک سجاد کی ساری ادھوری کہانیاں پڑھ لی ہیں۔ بعض کہانیاں تو ایسی ہیں کہ جن میں کہیں میں خود اپنے آپ کو بھی ”سلیمانی ٹوپی“ پہنے دیکھتا ہوں۔ دکھائی نہیں دیتا مگر سجاد کی انگلی تھامے ملتان کی گلیوں ، سڑکوں، تقریبات اور شخصیات سے ملتا محسوس کرتا ہوں۔ امجھے تو سجاد جہانیہ کی درویشوں کے حوالے سے لکھی گئی کہانیاں بھی بہت پسند آئی ہیں۔ وہ عام لوگوں میں سے بھی اپنی مرضی اور پسند کے کردار تلاش کرکے ان سے مکالمے کرنے لگتا ہے۔سجاد، ملتانی مٹی سے بناہوا خوشبودار اور گہرا آدمی ہے مجھے اس سے مل کر ایسا لگا جیسے آج میں اپنے



آپ سے مل رہا ہوں۔“
تقریب کی نظامت مرزا محمد یٰسین بیگ نے کی ۔انہوں نے اختصار اور جامعیت کے ساتھ پروگرام کو آگے چلایا ، وہ نظامت بھی کرتے رہے اور ساتھ ساتھ انتظامات کو بھی مانیٹر کرتے رہے ۔روزنامہ تاریخ انٹرنیشنل کی طرف سے اعتراف خدمت ایوارڈ جناب گل نوخیز اختر اور علی اصغر عباس کے ہاتھوں جناب سجاد جہانیہ کودیاگیا۔ پروفیسر رضیہ رحمان کی طرف سے پروفیسر یحیٰ عزیز میموریل ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ، جناب سجاد جہانیہ کو جناب مجیب الرحمان شامی اور سینئر صحافی عطاالرحمان کے دست مبارک سے عطا ہوا۔اسلامک رائٹرز موومنٹ کی طرف سے خصوصی یادگاری شیلڈ ملک احمد خاں اور حفیظ چوہدری نے جناب سجاد جہانیہ کودی ۔پاکستان رائٹرز کونسل کی طرف سے جناب سجاد جہانیہ کو عطاءالحق قاسمی ایوارڈ برائے ادب و صحافت بھی پیش کیا گیا ۔







Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts