نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

موسمیاتی تبدیلیاں

 موسمیاتی تبدیلیاں



شدیدترین حبس اور لوکی طوالت کے بعدٹھنڈی ہواچلی تو بادلوں سے چھن چھن کرآتی روشنی میں بادلوں سے ٹپکتی بوندوں کے ماحوال میں غیرمتوقع موسمیاتی تبدیلیوں  کاموضوع زیربحث تھا۔ راقم کامؤقف تھا کہ ہم کیسابدقسمت ملک ہے کہ جہاں عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں ہمارے لیےگرمی کے موسم میں تندورکاماحول بنادیتی ہیں تو بے موسم کی بارشیں ہمیں  ڈبونے کو آن پہنچتی ہیں۔ گندم پکنے کے موسم میں اولے پڑتے ہیں موسلادھار باردھاربارشیں پکی ہوئی فصل کھیتوں سے اٹھانے کی مہلت بھی نہیں دیتیں۔ دھان کی بوائی کے موسم میں ضرورت کے باوجود بارشیں ترسادیتی ہیں۔ بارشیں آتی ہیں توبے پناہ بارشیں آجاتی ہیں۔نہیں آتیں تو خشک سالی کاماحول بنادیتی ہیں۔ خیر بات عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں غیرمتوقع بارشوں اور سیلابوں پرآئی تو فاضل  صحافی دوست محمدعرفان چشتی نےاس بات کی تائید کی کہ ہمارے یہاں ہائیڈروپاورجنریشن پرزورتودیا جاتاہے۔ 

آب پاشی کے لیے قدرتی وسائل کی بات توکی جاتی ہے مگر جن غیرمتوقع سیلابوں میں ہم ڈوب رہے ہوتے ہیں اس کے پانی کومحفوظ کرنے کاکوئی انتظام نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیلاب تباہی پھیلاکرگزرجاتے ہیں تو کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال ضرورآتاہے کہ ہمیں  سیلابی پانی میں ڈوب جانامنظورہے مگر اسے محفوظ بنانے کاشعور نہیں۔ پانی محفوظ بنانے کے ذخائر کی بات تو کی جاتی ہے عملی اقدامات نہیں کیے جائے ۔ پانی کے ذخیرے کی بات کی جائے توسب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے مگراس پرہمیشہ صوبائی سیاست کی جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم لاشوں پربنانے کی بات کی جاتی ہے۔

 بے موسمی بارشوں نےابھی پاکستان کواس وقت مزید کنگال کردیاتھا  جب وہ ایک ایک ارب ڈالرکے لیے ناک سے لکیریں نکال رہاتھا۔ پھرہم ایسے ڈوبے کے دنیا سے مانگنے پرمجبورہوگئے۔ اس کسمپرسی اور کم مائیگی کو برداشت کرلیا مگرہم نے اس بات کو زیرغورنہیں لائے کہ سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کاکوئی انتظام کرلیاجائے۔ ماحولیات کو متوازن اور قدرتی  ماحول بنانے  میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیں اورہمارے معاشرے کو قصوروارقراردیا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا۔ ہم نے درخت کاٹ کر کنکریٹ کے جنگل بنانا شروع کررکھے ہیں۔ لاہور،کراچی ،فیصل آباد اورراولپنڈی جیسے گنجان آباد شہروں کے فضائی جائزے سے اصل تصویرسامنے آجائے گی۔ سبزے کی جگہ بلندوبالا عمارتیں حدنگاہ کا راستے روکے کھڑی ہیں۔ تعمیرا ت کی بہتات کااندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ لاہورسے راولپنڈی تک سفرکرتے ہوئے انسان کوبسانے یا کمرشل  ازم کے پوائنٹ آف ویوسے دھڑادھڑتعمیرات کی جارہی ہیں۔

جی ٹی روڈ پرلاہورسے راولپنڈی تک عمارات کالامحدود سلسلہ ہے۔ نگاہوں کی فضائی پہنچ میلوں تک ہونی چاہئے مگرجگہ جگہ تعمیرات کی وجہ سے یہ حد پہلے فرلانگ اوراب توگزوں تک محدود ہوگئی ہے کیونکہ جدنگاہ کے آگےدیواریں سدِ راہ بن جاتی ہیں۔ درخت کٹنے اور ماحول میں سبزے کی کمی سے ماحول میں حیاتیاتی حسن بھی مفقود ہورہاہے۔ جانوروں اورپرندوں کی نسلیں بھی تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ پھراگے ہوئے فطری جنگلات کی جگہ  کنکریٹ کے بنائے گئے جنگلات ماحول میں گرمی کی آگ کو بھڑکارہے ہیں ۔ تازہ ترین بارش سے پہلے کی سانس بند کردینے والی گرمی کوہی دیکھ لیں جوبظاہر42سنٹی گریڈ تھی مگر محسوس ماحول میں اس کی شدت 50سنٹی گریڈ محسوس ہوتی رہی۔ فطری ماحول کی معدومیت سے ماحول دوست جانوراورپرندوں کی نسلیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ہاں البتہ ماحول دشمن جانداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

 جن میں خاص طورپر انسان،چیل اورآوارہ کتے شامل ہیں۔ انسان اپنی نسلوں کی ضروریات کے لیے ماحول کواپنے لیے تنگ کررہاہے،چیل ایساجانورہے جوایئرپورٹس پر طیارہ حادثوں کاباعث بنتاہے اور آوازہ کتےخود انسان کے یے خطرہ بنتے ہیں۔ پھرجہاں جہاں جدیدسہولیات کی رسائی ممکن ہورہی ہےوہاں فطری ماحول توتباہ ہوہی رہاہے ۔ انسان کی قدروقیمت بھی کم ہورہی ہے۔ زرعی رقبے پر کنکریٹ تھپنے سے فطری ماحول کے لیے توجگہ کم ہورہی ہے ۔ دنوں کاسفرگھنٹوں توگھنٹوں کاسفرمنٹوں میں  طے ہونے کے سامان کی سہولت انسان کی تن آسانی کی وجہ سے بیماریوں  کاباعث بن رہی ہے۔ معاشرے میں بیماروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ زرعی رقبہ کم ہونے سے اجناس  کی کاشت مشکل اورمہنگی ہورہی ہے۔ اجناس کی کاشت کم اورمہنگی ہونے کی وجہ سےمعاشرے میں غربت بھی بڑھ رہی ہے۔ غربت بڑھنے سے جہالت اور بے حسی کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔ پتھراورتعمیرات میں اضافے کے اس ماحول میں غیر متوقع بارشوں کے سیلابی پانی کی گزرگاہیں کم ہونے سے ہرسال ہماراکوئی نہ کوئی صوبہ سیلابی پانی میں ڈوبانظرآتاہے۔ دوستوں کے ساتھ بحث کانکتہ ارتکاز یہ تھا کہ ہمیں ڈوب جانا منظورہے ،ڈبونے والے پانی کا مثبت استعمال منظورنہیں۔ بارش میں لاہورکی سڑکیں  کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ بارشوں کاپانی گھروں کے اندرچلاجاتاہے اورپھرکئی کئی روز اس پانی سے تعفن مکینوں کاسانس لینا دوبھرکردیتاہے۔ 

اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے اور اس کے دوبارہ استعمال کے لیےچندسال قبل زیرزمین ذخیرے بنانے کے مفیداقدامات کیے گئے اور باغ جناح کے پاس برساتی پانی کو محفوظ کرنے کا ذخیرہ بنایا بھی گیا اور اس کاپانی ابھی تک استعمال کیاگیا مگر ضرورت اس امرکی ہے کہ لاہورکی سڑکوں پرجمع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانی کو محفوظ بنانے کے مقامات بنائے جائیں تاکہ تیز سے ختم ہوتے زیرزمین پانی کوبچانے کے لیے ان ذخیروں سے پارکوں ،درختوں اور پودوں  کی آبیاری کی جائے۔ 

اسی طرح تباہی کے پیامبرسیلابوں کے پانی کو اگرمحفوظ کرلیا جائے توملکی زراعت  اورجنگلات کوسیراب کرنے اورپن بجلی کی پیداوارکے لیے استعمال کیا جائے توملکی میں انقلاب آسکتاہے۔ پھرہمارے دریاؤں پرانڈیا معاہدوں کے برعکس ڈیم بنارہاہے اوروہاں ڈیم بنانے پرکوئی تنازع نہیں توپاکستان میں بھی کوئی تنازع نہیں ہوناچاہئے۔ سیلاب سے تباہ کاریوں کی بحالی کے لیے ہمارے جتنے وسائل لگ جاتے ہیں ان سے کہیں کم وسائل میں  اگراس پانی کومحفوظ کرنے کے لیے ملک بھرمیں کم ازکم 5ذخائربنالیے جائیں تو ہمارازیرزمین پانی بھی بچے گا۔ سستی قیمت پر ہماری زرعی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔


نوٹ : یہ  بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری  نہیں ہے 



تعارف: محمدفاروق سپرا سینئر جرنلسٹ ہیں،وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معتبر نام  ہیں۔روزنامہ وفاق، روزنامہ خبریں، روزنامہ  صحافت،دوپہر، روزنامہ انصاف، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ وقت،وقت نیوزٹی وی، سٹارایشیا،پنجاب ٹی وی ،دنیا نیوز،ایکسپریس نیوز میں  مختلف پوزیشنزپر کام کرچکے ہیں اور آج کل92نیوز میں کام کررہے ہیں۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts