ایک انارسوبیمار
آٹے کے حصول کے لیے دھکم پیل اورچھیناجھپٹی نے آپادھاپی اور حشر کا منظر بپا کردیا۔ کچھ حق داروں کو آٹاملابھی ہوگامگر کیاتمام حقداروں تک مفت آٹاپہنچ سکا؟یہ ملین ڈالرکاسوال ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھئے یہاں جوبھی چیز مفت ہے تباہی اور انسانی جانوں کی ارزانی اوربے قیمت ہونے کاپیغام لاتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو کراچی کے مخیر صاحب کی کاوش تھی جواس کی نیک نامی کی بجائے اودھم مچنے سے متعددافراد کی ہلاکت پرمنتج ہوئی۔ وہ بے چارہ لوگوں میں مفت راشن تقسیم کرکےاللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتاتھا مگر دھکم پیل اور خود ساختہ حق داروں نے وہ حشرسامانی برپا کی کہ خداکی پناہ،پکڑوپکڑوکے نعرہ ہائے مستانہ میں وہ غدرمچاکہ کئی اموات ہوگئیں۔وفاقی حکومت اورپھرپنجاب اوربلوچستان حکومت اورکےپی کے کی نگران حکومت کی جانب سے تائیدی اقدامات سے پتہ نہیں حق داروں تک مفت آٹاپہنچا یانہیں مگرغریبوں کی لمبی لائنوں اورخواتین کی کسمپرسی اورکبھی کبھی مفت آٹالانے والی گاڑیوں پر لوگوں کے ٹوٹ پڑنے کے ہولناک مناظرنے ہماری قومی غربت کی اندوہناک حقیقت کو چوراہوں کے بیچ ننگاکیا۔
عام حالات میں تو چھینا جھپٹی کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن کیا کریں جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے کچھ چھین رہے ہوں انہیں برا بھی نہیں سمجھا جا سکتا ۔اگرانہیں اپنا حق باعزت طریقے سے دے دیا جائے تو وہ کیونکر چھینیں گے ؟ایک طرف ان کی بھوک ہے جس کا نتیجہ بیماری اور موت ہے جبکہ دوسری طرف روٹی چھیننے کا آپشن ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بھوک سے مرنے اور بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھنے کی بجائے روٹی چھیننے کوترجیح دیں گے۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ وہ جن لوگوں سے آٹا چھین رہے ہیں وہ بیچارے خود بھی انہی کی طرح مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہی آٹا لینے کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں جب آٹا ہاتھ آتا ہے تو کوئی اور چھین کر لے جاتا ہے جو نہایت کربناک صورتحال ہے۔ اب تک کئی لوگ آٹے کے حصول کے لیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ہزاروں خواتین اس رمضان میں مفت آٹے کے حصول کے لیے مختلف پوانٹس پر سارا دن انتظار کرتی ہیں۔ ہاتھوں میں شناختی کارڈ لیے یہ خواتین امید رکھتی ہیں کہ شاید آج انھیں آٹے کا تھیلہ مفت مل جائے گا۔یہ خواتین ان مردوں کے ہجوم میں ایک کونے پر کھڑی رہتی ہیں کیونکہ آٹا تقسیم ہوتے ہوئے اکثر نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ پہلے جو لوگ بھوک سے مر رہے تھے اب وہ حکومت کی طرف سے ملنے والے مفت آٹے کی جستجو میں مر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نہایت دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ، لوگ مفت آٹے کے حصول کے لیے ٹرکوں پر چڑھ جاتے ہیں جہاں سے گر کر زخمی ہوتے ہیں، کہیں بھگدڑ کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں ، کہیں لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں اور کہیں پولیس کی طرف سے ان پر لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔ غریب لوگ آٹا لینے کے لیے جب پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں معلوم ہوتا ہے کہ آٹا طلب سے کہیں کم ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ محروم رہ جائیں گے، اس لیے وہ اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔
گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔تاہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ برسوں میں کورونا کی وبا اورسیلابی کی تباہ کاریوں اور حال میں گندم کی تیارفصل کی بارشوں سے تباہی کے باعث پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو چکا ہے جو دن بدن بڑھ رہا ہے پٹرول کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب عوام موٹر سائیکل تک چلانے سے عاجز آگئے ہیں۔ بیروزگاری نے ملک میں بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں جس نے لوگوں کو بھوکے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور علم و ہنر تو رہے ایک طرف بچوں کا کھانا اور لباس ہی پورا نہیں کر پا رہے۔
وزیراعظم نے رمضان پیکیج کے طورپر25شعبان المعظم سے25رمضان المبارک کے درمیان مستحقین کو10کلو کے تین آٹے کے تھیلے دینے کی ہدایات دی تھیں۔ ابتدائی طور پر استحقاق کا معیار بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام کی رجسٹریشن قرار دیا گیا تھا تاہم وزیراعظم نے مزید ہدایت کی تھی کہ جو افراد60 ہزار روپے ماہوار تک کی آمدنی کے حامل اور بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ نہیں وہ خود کو رجسٹرڈ کروا کے آٹا حاصل کر سکیں گے۔آٹے کی ترسیل تو شروع کردی گئی لیکن کسی متعلقہ محکمے نے نئی رجسٹریشن کا طریق کار وضع نہیں کیا اور کم آمدنی والے غیر رجسٹرڈ حضرات تاحال محرومی کا شکار ہیں۔
ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے آپ کو آٹا لینے کا مستحق سمجھتے ہیں لیکن دیا گیا سرکاری نمبر8070 ان کو نااہل افراد کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے جس وجہ سے ان کی رجسٹریشن نہیں ہو پا رہی۔تمام مفت آٹا سینٹرز پر بڑی تعداد ایسے افراد کی نظر آئے گی جو سسٹم کی طرف سے مفت آٹا لینے کے لیے خود کار طریقے سے نااہل قرار دیئے گئے ہیں۔ایسے افراد پھر بھی اس امید پر ان سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں کہ شاید تقسیم کرنے والے اہلکاروں کو وہ اپنی بات سمجھا سکیں۔ رجسٹریشن کا پیچیدہ طریقہ ، آٹے کی طلب کے مقابلے میں بہت کم فراہمی، جس کی وجہ سے لوگ سارا سارا دن روزے کی حالت میں قطاروں میں کھڑے ہو کر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا جس نے ملک کے غریبوں کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔
دوسری طرف پنجاب حکومت نے مفت آٹا سکیم کے آغاز کے ساتھ ہی سبسڈائز آٹے کا سلسلہ منقطع کر دیا ہے۔ مل مالکان نے سستے آٹے کی پسائی ختم کر کے10کلو آٹے کا تھیلا 1168 روپے کر دیا ہے جس سے رجسٹریشن نہ ہو سکنے کے باعث مستحق افراد بھی مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہوں گے۔حکومت کی جانب سے سستے آٹے کی فراہمی کے اب تک کے عمل کو دیکھا جائے تو نتائج بتاتے ہیں کہ مفت آٹاتو کیا کوئی بھی چیز مفت نہیں کی جانی چاہئے۔ اس سے زیادہ بہترتویہ ہے کہ قیمتیں کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ضروری اشیاکی قیمتوں کامعیار ایساہوناچاہئے کہ غریب کی رسائی بھی ہوسکے۔
مفت آٹا فراہم کرنے کی بجائے کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت آٹے کے نرخ کم کرنےاورسپلائی بہتربنانے کے اقدامات کیے جاتے۔ ایسی صورت میں دھکم پیل ہوتی نہ لائنیں لگتیں اور نہ ہی عالمی میڈیا میں ہماراتماشالگتا۔ کیاہی اچھا ہوکہ گندم کی نئی فیصل آنے پرعیدکے بعد آٹے کے نرخوں میں واضح کمی کی جائے تاکہ روٹی کانوالہ ضرورت ہی رہے سامان تعیش کی حیثیت اختیارنہ کرے۔
نوٹ : یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
تعارف: محمدفاروق سپرا سینئر جرنلسٹ ہیں،وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معتبر نام ہیں۔روزنامہ وفاق، روزنامہ خبریں، روزنامہ صحافت،دوپہر، روزنامہ انصاف، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ وقت،وقت نیوزٹی وی، سٹارایشیا،پنجاب ٹی وی ،دنیا نیوز،ایکسپریس نیوز میں مختلف پوزیشنزپر کام کرچکے ہیں اور آج کل92نیوز میں کام کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment