’’نولکھی کوٹھی ‘‘
لا تنقیدی جائزہ ۔۔۔عثمان امجد
اس ناول کا حلقہ ہائے دوستاں میں کافی ذکر ہے۔ علی اکبر ناطق کے افسانوں کی کتاب خریدی تھی کافی عرصہ پہلے۔ اس میں سے چند افسانے پڑھے ، واجبی سے لگے اور دلچسبی برقرار نہ رکھتے ہوئے باقی پڑھ نہیں سکا۔
پڑھنے کو ایک طویل فہرست ہمیشہ پیشِ نظر رہتی ہے۔ غیر افسانوی ادب تو ثقیل یا بے مزہ بھی ہو تو پڑھنا پڑتا ہے کہ حصولِ علم اور اضافہ معلومات کے لیے ضروری ہے مگر فکشن میں، دلچسپی ، افسانویت ، رواں اور شستہ زبان اور ربط ہی شرط ہے۔
کسی سیانے نے ’’میر واہ کی راتیں ‘‘ پر میرے تبصرے کے جواب میں کہا تھا کہ ہر شخص کی پسند الگ ہوتی ہے اور ناول نگار کسی کی پسند کو سامنے رکھ کر نہیں لکھتا۔ میں نے اس سیانے کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ چونکہ میں کوئی نقاد نہیں ہوں محض ایک قاری ہوں اس لیے مجھے کسی افسانے یا ناول کو پڑھ کے جو محسوس ہوتا ہے وہی لکھتا ہوں ( ویسے ایک سیانے نے تو یہ بھی کہا تھا کہ اپنی رائے دینا ایسا ضروری بھی نہیں ہے ) اور میں نے سوچا تھا کہ سیانوں کی سبھی باتیں مان لینا بھی کوئی ضروری نہیں ہے ۔
اب کے کتاب میلے سے جو کتابیں خریدیں ان میں علی اکبر ناطق کا ناول ’’نو لکھی کوٹھی‘‘بھی تھا۔ قبلہ سلمان باقر صاحب نے فرمایا کہ ناول بدست ناول نگار وصول کیا جائے ، سو ایسا ہی کیا گیا۔
ناول جہلم بک کارنر سے شاہد گگن صاحب نے چھاپا ہے۔ ٹائٹل پیارا ہے اور جلد مضبوط ہے۔ کھردرے کاغذ والی( ٹیکسچر والی ) جلدیں بھاتی ہیں۔اور قیمت پچاس فی صد رعایت کے ساتھ کتاب اور قاری دوستی کا حق ادا کرتی ہے۔
شوق سے پڑھنا شروع کیا اور کچھ ہی دنوں میں’’ تمت بالخیر ‘‘ کو آن لگا۔ یہ ناول بھی ان ناولوں میں شمار ہوا جو میرے جیسا ’’آہستہ خواں‘‘ یا’’ سست القراءت ‘‘( دونوں تراکیب اچھی بن گئی ہیں ) بھی چند دنوں میں پڑھ لیتا ہے۔ اسے میں ناول کی ایک خوبی سمجھتا ہوں۔
ناول انیس سو بیس یا پچیس کے آس پاس شروع ہوتا ہے ( مجھے یہی اندازہ ہوا ) یہ وہ زمانہ ہے جب صاحب بہادر نے وسطی پنجاب کی آباد کاری کے لیے متحدہ ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے کسانوں کو ادھر آنے کی ترغیب دی اور باریں آباد ہوئیں۔ اس آباد کاری کا ناول میں ذکر نہیں ہے ، جو کہ ناول کی کہانی کے مطابق ضروری بھی نہیں تھا ۔
ناول پڑھتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ ناطق نے اچھی تیاری کے بعد لکھا ہے۔ تاریخ کو موضوع بناتے ہوئےاسکا علم ہونا ضروری ہے۔ ناول کے زمان و مکاں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ میرا گمان ہے کہ فیروز پور کی تحصیل جلال آباد سے ہیڈ سلمانکی کا فاصلہ کافی ذیادہ ہوگا۔ نقشے پر دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ پلے نہیں پڑا۔لیکن ناول پر یہ کسی طرح سے اثر انداز نہیں ہے۔
ناطق نے انگریز بہادر کے دیسیوں کے ساتھ رویے کا گہرا مطالعہ کیا ہے جسکی جھلک ناول کے کردار کمشنر ولیم میں واضح اور دلچسب ہے۔ ولیم اور اسکے باس ہیلے کا مکالمہ اور پھر خصوصاً ولیم اور غلام حیدر کا مکالمہ ( گو بہت مختصر ہےمگر ) اس ناول کی جان ہے۔
ناطق نے اس ایک ناول میں انگریزوں کی رعونت اور دیسیوں کی چاپلوسی ، سکھوں اور مسلمانوں کی چپقلش ، ہندوؤں کی کاروبار پر اجارہ داری ، مسلمانوں کی جہالت ، قانون کی عملداری ، تقسیمِ ہند کی دو طرفہ قتل و غارت ، مہاجرین کی کس مپرسی ، اور پھر آباد کاری کے گھپلوں جیسے اہم اور حساس موضوعات کو ہدف بنایا ہے اور خوبی کے ساتھ نبھاہ بھی کیا ہے۔
ناول کی باب بندی بڑی چابک دستی سے کی ہے۔ ولیم ، غلام حیدر اور مولوی کرامت کی کہانیوں کو باب در باب بہت ہنر مندی سے پرویا ہے۔
سب کرداروں کو گہرائی میں جاننا اور ان کی نفسیات کو سمجھ کر لکھنا یہاں تک کہ موقع کی نفسیات کا بیان کرنا ، میرے نذدیک اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ناطق کے اس ڈھنگ نے مجھے متاثر کیا ہے ( حال آنکہ میرا متاثر ہونا کچھوے کا خول لیے ہوئے ہے ) ( یہ اعتراف کرنے میں بھی کیا قباحت ہے کہ ہم عصروں کی کہانیوں وغیرہ کو پڑھتے ہوئےمیں کافی کمینہ خصلت اور متعصب ہو جاتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک چھوٹا موٹا کہانی کار ہوں ) ( پرفیشنل جیلسی ) ( اوپر تلے بریکٹوں کے لیے معذرت خواہ ہوں ) ( مگر ان سے آپ کے پڑھنے کی روانی میں تو کوئ رکاوٹ نہیں آرہی ہو گی )
ناطق نے اپنے تخلیق کردہ کرداروں کو بہت عمدگی سے لکھا ہے۔ چہرے مہرے اور جسمانی ساخت کی تفصیلات بتائی ہیں۔ بہت واضح طور پر ہر کردار اپنی نفسات لیے ہوئےہے جو اس کے ہر عمل سے مترشح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولیم ، غلام حیدر ، سودھا سنگھ ، مولوی کرامت وغیرہ کی الگ الگ تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں اور یہ سب ہمیں جیتے جاگتے دکھتے ہیں۔
افواہ سازی کا عمل بہت سادگی اور چابکدستی سے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ کسی رنگ دار دھوئیں کی مانند ہم افواہ کو پیدا ہوتے اور پھر پھیلتے دیکھتے ہیں۔
اس ماحول کر ذہن میں رکھتے ہوئےیہ واقع سودھا سنگھ کے قتل کی کہانی میں موزوں نہیں بیٹھتا کہ بیس پچیس بندے غیر قانونی اسلحہ کے جرم میں ایک منصوبے کے تحت بند کیے جائیں اور پھر سودھا سنگھ کے قتل کے روز طے شدہ امر کے تحت وہ تھانے سے نکالے جائیں ، قتل میں غلام حیدر کا ساتھ دیں ، واپس آ کر دوبارہ حوالات میں بند ہو جائیں اور کسی کو اس سازش کی کان و کان خبر نہ ہو۔ یہاں تک کہ یہ راز کبھی بھی نہ کھلے۔ کوئ ایک بندہ اس سازش میں شامل ہو تو پھر بھی اسکا امکان ہو سکتا ہے مگر پورے کا پورا تھانہ جانتا ہو اور کسی سے بھی بات نہ نکلے ، قرینِ قیاس نہیں ہے۔
اس ناول کو دلچسب بنانے میں غلام حیدر اور سودھا سنگھ کی مخاصمت اور لڑائیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور ناطق نے اس دشمنی کی سنسنی کو قائم رکھا اور اچھا بیان کیا ہے۔
کچھ چبھتے ہوئے جملے بھی گاہے گاہے ناول کی زینت بنے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کے ماحول میں جو پراسرایت جنم لے رہی تھی اسکو ’’نحوست‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسکی وجہ اس نعرے کو قرار دیا ہے جس کی وجہ سے ایک ملک کو دو حصوں میں بٹنا تھا۔
جب جودھا پور میں سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کا خون نہا رہے تھے تو لکھا ہے کہ اس وقت قائداعظم اور نہرو اور گاندھی اطمینان اور حفاظت سے اپنے گھروں میں تھے۔ سول سروس کے اچھے افسر کے لیے ضروری ہنر کو بیان کرتے ہوئےلکھا ہے کہ اسے اقبال کے اشعار اور اسکی زندگی کی ’’ نیک نیک‘‘ باتیں یاد ہونی چاہئیں۔
ساڑھے چار سو صفحوں میں قاری کی دلچسبی برقرار رکھنے ، کہانی کے ربط کو قائم رکھنے ، سادہ پیرائے میں بیان کرنے اور عمدہ کردار نگاری کے باعث ’’نولکھی کوٹھی ‘‘ کو اچھا ناول کہا جا سکتا ہے۔








No comments:
Post a Comment