مذاکرات۔۔۔کیا سیاسی جماعتیں لچک دکھانے کے لئے تیار ہیں؟۔۔۔۔فوری الیکشن کی شرط کیوں؟۔۔۔۔اگلا لائحہ عمل اور حکمت عملی کیا ہے؟
پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے۔مذاکرات کے دو سیشن اگرچہ خوشگوار ماحول میںہوئے اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، ملک بھر ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما اور تحریک انصاف کا وفد مذاکرات کر رہا ہے۔بات چیت کے دو ادوار ہو چکے ہیں اور دونوں اطراف کے وفود اپنی قیادت سے مشاورت کے بعد منگل کو تیسری بار ملیں گے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں لچک دکھانے کے لئے تیار ہیں ۔پی ٹی آئی کی طرف سے فوری الیکشن کی شرط رکھی گئی ہے۔مذاکرات میں پیش رفت ہوگی یا ڈیڈ لاک برقرار رہے گا؟۔فوری الیکشن کے جواب میں لچک کے جواب میں لچک دکھائی جائے گی؟۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سےپشاور میں اہم ملاقات ہوئی ہے۔ انہیں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھرمیں ایک ہی روزالیکشن کرانے سے متعلق ہونے والے مذاکرات پراعتماد میں لیاگیا اور ملک میں سیاسی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔جمعیت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی جگہ حصہ نہیں بنیں گے۔
پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑی تحریک اور لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے۔ فوادچودھری کا کہنا ہے تحریک انصاف مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے لیکن ناکامی کی صورت میں حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آئین کو ردی کا ٹکڑا اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ لیا جائے اور تحریک انصاف خاموش بیٹھ جائے، مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عوام بڑی تحریک کیلئے تیار ہو جائیں۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عوام بڑی تحریک کے لیے تیار ہو جائیں، تحریک کا آغاز لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ریلیوں سے ہوگا۔ن لیگ کی طرف سے یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت تحریک انصاف کو دی گئی انتخابات کی تجویز کے جواب تک خاموش رہے گی ۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چودھری نے پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ایک اور لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے۔
اس بارے میں پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کاکہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے اسی لیے مذاکرات کر رہےہیں، حکومت کی طرف سےمذاکرات میں نیک نیتی نظر نہیں آرہی ہے، ذاتی مفادات کی خاطر ملک کےلیےخطرہ پیدا کیاجارہا ہے۔ جب تک ایسا معاہدہ نہ ہو جس پر سب کو اتفاق ہو ملک ترقی نہیں کرسکتا، منگل کا دن مذاکرات کا آخری موقع ہوگا۔
پی ٹی آئی وفد نے حکومتی ٹیم کے سامنے نکتہ رکھا ہے کہ عمران خان لڑائی نہیں چاہتے الیکشن تاریخ پر لچک دکھانے کو تیار ہیں جبکہ حکومتی وفد نے اسمبلیوں میں واپسی کا نکتہ پی ٹی آئی کے سامنے رکھاہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے اسمبلی واپسی کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا حکومت 2 ماہ قبل انتخابات پر لچک دکھائے تو ہم بھی لچک دکھا سکتے ہیں۔حکومتی ٹیم کا موقف تھا بجٹ گزرنے کے بعد الیکشن کے فیصلے ہوں گے جبکہ پی ٹی آئی کے وفد نے مطالبہ کیا بجٹ سے پہلے الیکشن کی تاریخ کا تعین کیا جائے۔
عمران خان کا اسلام آباد پیشی پر کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کو ہدایت کی کہ اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات کریں، اگر دوبارہ وہی ستمبر اکتوبر کی بات کرتے ہیں تو بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سراج الحق کاکہنا ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کریں، سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے عید الاضحی کے بعد قومی انتخابات کی تجویز دی۔پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی رویوں میں لچک پیدا کریں، دو دو قدم پیچھے ہٹیں تو ہی اتفاق رائے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔مذاکرات کے کیا نتائج نکلتے ہیں اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے لیکن ملک میں اس وقت سیاسی اور آئینی بحران ہے جس کا واحد حل ڈائیلاگ میں لچک سے ہی ہے۔
پی ڈی ایم کے پاس اب سیاست کے میدان میں کچھ نہیں بچا
ReplyDelete