میرے ورگاوی تے دس
جان ہے توجہان ہے،انسان خود ہے توباقی ساری دنیاہے،انسان خود نہیں توکچھ بھی نہیں،اول الذکرخویش ہے درویش کی باری پھرآتی ہے۔ انسان کی اپنی ذات میں کوئی عارضہ ہے کوئی روگ ہے کوئی بیماری ہے تواس کے لیے دنیا کی رونق، دولت کے انباراورخوشحالی کسی کام کی نہیں۔زاہدمقصود سپورٹس کی دنیا کی جانی پہچانی شخصیات میں سےایک ہیں۔سپورٹس رپورٹنگ کاتذکرہ ان کے بغیرمکمل نہیں ہوتا۔ ان کاسنایا ایک واقعہ بھلائے بھی نہیں بھولتا۔
فیصل آباد میں ان کے کسی انتہائی قریبی عزیزکی فوتیدگی ہوگئی۔ وہ کئی روز بعد دفترآئے۔ رسمی تعزیت میں دنیاکی بے ثباتی اور زندگی کی بے یقینی پرہم سب آپس میں اپنے اپنے اندازمیں تبصرہ کررہے تھے۔ ایسے میں زاہدمقصودنے بتایا کہ جوڈاکٹران کے عزیزکاعلاج کررہے تھے۔ وہ ان کے خاندان کے بہت واقف حال تھے۔انہوں نے سوال کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمت چیزکیاہے؟ سوال پرسب حاضرین سوچ میں پڑگئے۔ کسی کی سوچ کانتیجہ عزت پرآکراٹک گیا،کسی نے دولت کہا،کوئی شہرت بولامگرڈاکٹرصاحب انکارمیں سرہلاتے رہے۔ جب جواب کی بیل منڈھے نہ چڑھی تو ڈاکٹرخود ہی بول پڑے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز ’’صحت‘‘ہے،سب سوچ میں پڑگئے کہ وہ اس جواب کوکیسے جھٹلائیں تو ڈاکٹرصاحب نے بات جاری رکھی کہ صحت ہوگی تو دنیا کی رنگارنگی انسان کے کام کی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں صحت کامطلب انسان کااپناآپ ہے۔ یعنی انسان کی اپنی ذات سب سے زیادہ قیمتی ہے۔
عملی زندگی کی رہنمائی دینے والے میرےمحسن، بزرگوارسینئر صحافی خالدلطیف جب زندگی کی کیمسٹری اور مشکلات سے نکلنے کی راہوں کے بارے میں بتایا کرتے تھے وہ ان کی بات کابنیادی نکتہ یہ ہوتاتھا کہ انسان کی اپنی ذات سب سے اہم ہے۔ انسان کی کامیابیوں کی بنیاد اس کی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ نوے کی دہائی کے نصف کی مدت کاقصہ ہے ۔ عالم شباب اور اپنے محدودتجربات کاذکرکرتے ہوئے اپنی طرف سے ڈینگ ماری کہ میرے احباب میں بہت آسودہ حال شخصیات ہیں۔ تب اپنا کیریئربے سمت تھا۔ میری بات سن کر میرے مینٹورمسکرائے تومجھے وہ مسکراہٹ بہت معنی خیزلگی۔ دل متجسس ہوگیا کہ وہ مسکرائے کیوں؟ بے چینی سے اگلے دن کی نشست کاانتظارکرتارہا ۔ اگلے دن چھت پردھوپ میں بیٹھے تھے تو میں نے گزشتہ روز کی مسکراہٹ کی معنی خیزی کااحساس بیان کیا۔ جس پر انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ اچھی بات ہے کہ تم ایک اچھاسوشل سٹیٹس رکھتے ہو۔ مگریہ بتاؤ کہ تمہارے جاننے والے اگرآسودہ حال ہیں تو تمہارامعاشرتی مقام کیا ہے؟آج دھائیوں کے سفر کے بعد پیچھِے مُڑ کردیکھتاہوں تو مجھے علم ہوتاہے کہ وہ سوال تومیری زندگی اور میری ذات کے لیے سب سے بڑاسوال تھا۔
آج احساس ہوتاہے کہ میں ہوں تومیری زندگی کے تمام پہلوہیں۔ نسیم نیازی بھی خوب شخصیت ہیں لفظوں کادوٹوک استعمال کرتے ہیں۔ ان سے بات ہورہی تھی انسانی صحت کی تو میراجواز تھا کہ جب انسان صحت مندہوتاہے تو اپنی صحت کاخیال نہیں رکھتا۔ نہ کھانے پینے میں احتیاط کرتاہے ،نہ چلنے پھرنے نہ اٹھنے بیٹھنے میں۔ورزش صحت اورانسان کی ذات کی چستی برقراررکھنے کابڑاذریعہ ہے۔ صحت اورجان ہے تو ساراجہان ہےبلکہ بقائے انسان ہے۔ ہم آخراپنے آپ کاخیال رکھنے میں اتنے سست کیوں ہیں۔نیازی صاحب نے جواب دیا۔ ہم ورزش اور اپنی صحت کاخیال رکھنے کی طرف اس وقت دوڑتے ہیں جب ڈاکٹرکہتاہے کہ اب ورزش نہ کی،خود کاخیال نہ رکھا،متوازن غذااستعمال نہ کی تومرجاؤ گے۔ ڈاکٹرکی وارننگ پر انسان دوڑتاہے۔ بھاگتاہے،ورزش کرتاہے، اپنی غذاکاخیارکھنے کی طرف جاتاہے۔ پارک اورکھیل کے میدان ورزش کرنے والوں سے صبح ہی صبح بھرے نظرآتے ہیں ۔ ان میں سے اکثرافراد اپنی صحت کی دیکھ بھال کی طرف جانے سے پہلے کسی بڑے عارضے کاشکارہوچکے ہوتے ہیں۔ وہ بلڈپریشر کاشکارہوچکے ہوتے ہیں یا شوگران کے جوڑوں میں بیٹھ چکی ہوتی ہے۔ یہ معمول عارضے لاحق ہونے سے پہلے اختیارکیا جائے تو شایدبلڈپریشراور شوگرکے سامنے مزاحمت کی جاسکے۔جب انسان صحت مندہوگاتوہی زندگی کی رونقوں سے لطف اندوزہوسکے گا۔ صحت کے ساتھ ہی انسان کی ذات ہے۔
کتاب یادداشت میں جوباب روزروشن کی طرح عیاں ہیں ان میں سے سب سے زیادہ یقین انسان کے ہونے اورانسان کی اپنی اہمیت پرہے۔ پنجابی زبان کے زبردست شاعرلیاقت گڈگور نے جب اس خلاصے کو صرف دومصرعوں میں بیان کیا تو ان کوداددیناتوبنتی تھی۔ ان کاشعرپڑھتارہااور ماضی کی تمام یادیں تمام تجربات اور تمام مشاہدات ایک فلم کی طرح ذہن میں چلتے رہے۔
ٹھیک اے تیرے ورگاکوئی نئیں
میرے ورگا وی تے دس
ٹھیک ہے کوئی اپنی ذات میں اہم ہوگامگر میں ہوں تومیرے لیے کسی اور کی اورکسی چہل پہل کی اہمیت ہوگی۔ اگرانسان علیل ہے،کسی عارضے کی وجہ سے وہ زندگی سے بیزارہے تو اس کے لیےدنیا کی کوئی دولت کوئی سہولت اہمیت نہیں رکھتی۔ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹروحیدرزاق کہتے ہیں انسان کی نفسیات اور صحت کی بنیاد پرہی اس کی ذات استوارہوتی ہے۔ انسان کی سوچ اوراپنی ذات سے اس کالگاؤدنیامیں اس کی موجودگی کاجواز مہیاکرتاہے۔ اپناخیال رکھنا اوردنیا میں اپنے ہونے کے جواز کوکامیابی سے ثابت کرنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انسان کی دنیا اس کی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ وہ جتناصحت مند اورجتناکامیاب ہوگا اپنی زندگی سے اتناہی لطف اٹھائے گا۔ اپنی ذات کی موجودگی میں ہی وہ دوسروں کاخیال رکھ پائے گا۔
نوٹ : یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
تعارف: محمدفاروق سپرا سینئر جرنلسٹ ہیں،وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا معتبر نام ہیں۔روزنامہ وفاق، روزنامہ خبریں، روزنامہ صحافت،دوپہر، روزنامہ انصاف، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ وقت،وقت نیوزٹی وی، سٹارایشیا،پنجاب ٹی وی ،دنیا نیوز،ایکسپریس نیوز میں مختلف پوزیشنزپر کام کرچکے ہیں اور آج کل92نیوز میں کام کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment