منی بجٹ اور ٹیکسوں کی بھرمار۔۔۔مہنگائی کاطوفان۔۔۔کیا کچھ مہنگا ہوگیا؟
آئی ایم ایف کی شرائط پر170 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کیاگیا۔ اس سے عام آدمی کےمعمولات زندگی مزید متاثر ہوں گے۔
تمام اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فی صد کردی گئی ہے اس سے ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق پیکنگ والی تمام اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیاہے۔ نوٹیفکیشن کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ خوردنی تیل، گھی بسکٹ، مصالحہ جات، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، چاکلیٹ اور ٹافیاں مہنگی ہوگئی ہیں۔نئے نوٹی فکیشن کا اطلاق میک اپ کے سامان، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم، شیونگ بلیڈز، شیمپو، کریم، لوشن، صابن اور ٹوتھ پیسٹ پر بھی ہوگا۔ معاشی ماہرین کے مطابق جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافے سے عوام پر 50 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑتا ہے۔
ایف بی آر نے منی بجٹ کی منظوری سے پہلے ہی سگریٹس پر ٹیکس دگنا کر دیاتھا۔ایف بی آر نے مقامی سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کا نوٹیفکیشن کیا۔ نوٹیفکیشن میں 9 ہزار سے زائد کے فی ایک ہزار سگریٹس کے پیکٹ پر ڈیوٹی بڑھا کر 16 ہزار 500 روپےکردی گئی ہے۔ 9 ہزار روپے سے کم قیمت والے فی ایک ہزار سگریٹس کے پیکٹ پر ڈیوٹی 5 ہزار پچاس روپے مقرر کردی گئی ہے۔ سگریٹس پر فکسڈ ڈیوٹی کا اطلاق فوری طور پر ہے۔پرتعیش اشیاء پر ڈیوٹی کی شرح 25 فیصد تک پہنچانےکی حکومتی تیاری مکمل کرلی گئی ہے، منی بجٹ میں لگژری آئٹمز پر ٹیکس لگا کر 60 سے 70 ارب روپےکی آمدن کا امکان ہے۔ مقامی سطح پر تیار کچھ پرتعیش اشیا پر بھی جی ایس ٹی بڑھانےکی تجویزکی گئی ہے۔آئی ایم ایف کی مزاحمت کی وجہ سے حکومت نے فلڈ لیوی کو ملتوی کر دیا ہے۔
حکومت نے عوام پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 22 روپے 20 پیسے فی لیٹر اضافہ کیاہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ ڈالر کی شرح مبادلہ میں بڑھتی ہوئی بے قابو قدر بتائی جارہی ہے جو تقریباً 272 روپے کا ہوگیا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے گھریلو، کمرشل اور پاور سیکٹرز کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری د ی ہے۔گیس قیمت میں 16 سے 124 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے ، اس سے قبل حکومت نے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے پر پاور ہولڈنگ لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے فی یونٹ 3.82 روپے لیوی عائد کرنے کی منظوری دی۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آئی ایم ایف کی تجاویز مان کر ڈیفالٹ سے بچنے اور معاشی اصلاحات لانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف جو اقدامات تجویز کرتا ہے ، ان کی بنیاد سخت معاشی اصلاحات پر ہوتی ہے جس سے لامحالہ غریب اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
وطن عزیزکی معیشت ایک عرصے سے مشکلات کا شکار چلی آرہی ہے، اس میں قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرضہ اٹھایا جا رہا ہے ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی فہرست بھی آجاتی ہے۔اس فہرست پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس بوجھ سے متعلق یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ صرف مالداروں پر ہی ہوگا تاہم بالواسطہ سہی یہ بوجھ آخر پڑتا ملک کے غریب شہری پر ہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر نیا ٹیکس اسی روز پیداواری شعبے کی جانب سے صارفین کو منتقل ہو جاتا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات اور سہولیات کی صورت میں عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔اب کی بار بھی170 ارب کا ٹیکس فوراً عام صارف کو منتقل ہو جائے گا یہ عام صارف پہلے ہی گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے۔
حکومت کی جانب سے300 سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر سر چارج عائد کرنے کا بھی کہہ دیا گیا ہے ۔ ٹیکس کے سلسلے میں دو فیصلہ کن اور اہم ترین مسئل یہ ہیں کہ ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ڈائریکٹ ٹیکس بڑھیں جن میں انکم ٹیکس کے دائرے کو موثر کرنا، ویلتھ ٹیکس کے ایسے نظام کی تشکیل جو دولت مند اشرافیہ کو ٹیکس کی گرفت میں لاسکے۔
عام کاشتکار نہیں، زرعی آمدنی سے فیض یاب ہونے والے بڑے زمین داروں ، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے اقدامات، بازار حصص میں سرمایہ کاری کے منافع پر ٹیکس، ایک حد سے زیادہ پر جائیداد ٹیکس، نیز جائیداد کے کاروبار پر ٹیکس، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے دائرے کو ٹیکس کے منصفانہ نظام میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اشیائے ضرورت اور عام اشیا، زرعی آلات اور انرجی پر اخراجات کو معقول حدود میں رکھنے کے لیے اشیا اور خدمات پر ٹیکس کا وہ نظام رائج کرنا جو متعدد شرحوں کے اصول پر مبنی ہو نہ کہ واحد شرح کا نظام جو ہمارے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس وقت عالمی معاشی صورتحال کے پیش نظر ہمیں امداد دینے والوں کا بھی ہاتھ تنگ ہے اور اب ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں۔ حکمت عملی میں سب سے مشکل کام زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے سے متعلق ہے ۔جو بیرونی معاشی اثرات سے ہمیں بچاسکتا ہے اور ماضی میں یہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن چکے ہیں۔
ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔۔ ہمیں ترقی کے نئے راستوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کاکہنا ہے کہ منی بجٹ سے چار ماہ میں 170 بلین مزید ریونیو حاصل کیا جا سکے گا، بجلی اور گیس سیکٹر میں بھی ریفام لائی جائیں گی تاکہ گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔پاکستان کے محصولات کو بڑھانے کے لیے ایسے سیکٹرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے جو ابھی تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔تاہم سچ تو یہ ہے ملک میں معیشت کی جو صورتحال ہے اس سے ہر طبقہ پس رہا ہے، وقت گزرنے کےساتھ ساتھ متوسط طبقے کی قوت خرید کم ہوتی جارہی ہے۔تاہم اس مشکل وقت میںسب کو اپنا کردارادا کرنا ہوگاصرف مخصوص طبقے کوٹارگڈ کرکے ٹیکس کواکٹھا نہیںکیا جاسکتا۔







پاکستان کے موجودہ معاشی حالات پر ایک اچھی تحریر
ReplyDelete