نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی ۔۔۔۔۔۔پنجاب اسمبلی معاملے میں استعفے آئیں گے؟یا پھراعتماد کا ووٹ؟۔۔۔ن لیگ نے بھی منصوبہ بندی کرلی


پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی ۔۔۔۔۔۔پنجاب اسمبلی معاملےمیں استعفے آئیں گے؟یا پھراعتماد کا ووٹ؟۔۔۔ن لیگ نے بھی منصوبہ بندی کرلی



پنجاب اسمبلی کا مستقبل کیا ہوگا؟اسمبلی تحلیل ہوگی یا استعفے آئیںگے؟یا پھراعتماد کا ووٹ؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارےمیںہر شخص جاننا چاہتا ہے۔ملک کی سیاست کی صورتحال روز بروز تبدیل ہوتی جارہی ہے۔اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میںکون گریز کررہا ہے؟ کس نے کیا عندیہ دیا؟۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قیاس آرائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔سیاست میں دن رات تبدیلیاں ہورہی ہیں۔

عمران خان کی پنجاب اسمبلی کے معاملے پراب نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی زیر صدارت سیاسی صورتحال پر اہم ترین اجلاس ہوا تھا، اس میں وزیر اعلیٰ کیلئے اعتماد کا ووٹ 11 جنوری کے بعد لینے کا فیصلہ کیا گیاہے۔زمان پارک میںاجلاس میں تحریک انصاف کی سینئر پارٹی قیادت نے شرکت کی تھی۔

اجلاس کے دوران پنجاب کی سیاسی صورتحال خاص طور پر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے اعتماد کے ووٹ پر تفصیلی مشاورت  بھی ہوئی تھی۔ شرکاء کی تجویز تھی کہ ہمارے اراکین پورے ہیں، اعتماد کا ووٹ 11 جنوری کو عدالتی فیصلے کے بعد لیا جائے، اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے صوبائی وزراء کی ڈیوٹیاں بھی لگا دی گئیں۔صوبائی وزراء گروپس کی شکل میں اراکین اسمبلی سے رابطہ رکھیں گے۔ عمران خان نے سینئر قیادت کو اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ اور آئندہ الیکشن کے حوالے سے تیاریوں کی ہدایت کی۔

عمران خان کاکہنا ہے کہ اعتماد کا ووٹ عدالتی فیصلے سے مشروط ہے، عدالت نے کہا تو اعتماد کا ووٹ لیں گے، ہمیں اعتماد کے ووٹ کیلئے تیاری کرنی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہر وزیر اپنی ڈویژن کے ارکان اسمبلی کے ساتھ رابطے میں رہے گا، اعتماد کا ووٹ لیتے ہی فوری اسمبلی تحلیل کر دی جائے۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کاکہنا ہے کہ سمبلی میں اعتماد کے ووٹ کے بعد ہم الیکشن کے لیے عوام کے پاس جائیں گے، ملک کے مسائل کا حل نئے الیکشن اور عوامی مینڈیٹ سے آنے والی حکومت ہی دے سکتی ہے۔ وزرا نےپی ٹی آئی چیئرمین کو بریفنگ دی اور بتایا کہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تو ہمیں مسئلہ نہیں ہوگا۔ ہر وزیر کو اس کے متعلقہ ڈویژن کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔عمران خان نےہر وزیر کو ہدایت کی کہ اپنے ڈویژن کے ارکان اسمبلی سے رابطے میں رہے۔

دوسری طرف نلیگ بھی بھرپور تیار ہے ۔ن لیگ کی اعلیٰ قیادت  نے بھی  وزیراعلی کے اعتمادکے ووٹ کے حوالے سےمنصوبہ بندی کرلی ہے۔اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت نے پنجاب اسمبلی کے 9 جنوری کے اجلاس کی پیش بندی کرنے کے حوالے سے حکمت عملی مکمل کر لی ہے۔ اجلاس میں مختلف رہنماؤں کو اتحادی اور ن لیگ کے پنجاب اسمبلی کے اراکین سے مسلسل رابطے میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حکومتی اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطہ کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ کمیٹی بنانے پر بھی مشاورت ہوئی، ممکنہ عدم اعتماد کامیاب ہونے پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعلیٰ کا امیدوار کون ہو گا یہ بھی مشترکہ کمیٹی طے کرے گی۔

ن لیگ مریم نواز کی واپسی کاانتظار کررہی ہے لیکن آگے کالائحہ عمل طے کیاجارہا ہےکہ پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق میں کیاکرنا ہے اور

تحریک انصاف کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ مریم نواز جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہیں تاہم ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہےکہ آگے کی سیاست میں وہ کس طرح کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف ڈورٹوڈور انتخابی مہم کے بارے میںبھی منصوبہ بندی کررہی ہےکیونکہ پارٹی چیئرمین کےمطابق عوامی رابطہ مہم ضروری ہے اور کامیابی کے لئے عوام میں آگہی مہم ضروری ہے۔ اس وقت پارٹی کی توجہ پنجاب حکومت کے معاملے پر مبذول ہے اور چیئرمین عمران خان کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور طویل اجلاس ہو رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف نے احتجاج کے حوالے سے کئی مرتبہ حکمت عملی بدلی ہے۔پارٹی بیانیے کے مطابق یہ احتجاج جلد انتخابات منعقد کروانے کی غرض سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔ پہلے لانگ مارچ کیا گیا اس کے بعد عمران خان نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا سے ویڈیو خطاب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال بھی اسی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا رہی ہے۔ کچھ کی رائے ہے کہ جیسے ہی تحریک انصاف کو اسمبلی میں رکاوٹ کا سامنا ہو گا تو وہ اپنی توجہ احتجاج پھر مرکوز کر دے گی یہ ان کی سیاست ہے۔ قانونی ماہرین نے عمران خان کو رائے دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ عدالتی فیصلے سے مشروط کیا جائے، اعتماد کے ووٹ کے لیےگورنر کے حکم کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔قانونی ماہرین نے عمران خان کو رائے دی ہے کہ اگر عدالتی فیصلے سے قبل اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں تو گورنر کا آرڈر آئینی ہو جائے گا۔

پنجاب میں سیاسی صورتحال کوبدلنے کے لئے گیم چینجر سابق صدر آصف علی زرداری نے مبینہ حکمت عملی پر کام شروع کر دیاہے۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور چودھری سرور گروپ کی قیادت میں ایک نیا گروپ بنانےکی تیاری کر لی ہے تاکہ آ ئندہ کی حکمت عملی تیارکی جائے۔

اعتماد کے ووٹ کامعاملے میں کیا پنجاب میں مزید تلخیاں بڑھیں گی؟اگر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا توپنجاب حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟

کیا پنجاب کے محاذ پربھی ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے؟۔تو عرض یہ ہے کہ جناب وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی کاکہنا ہے کہ عمران خان فیصلے کرتے وقت ہمیشہ قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ ہماری نیت نیک اور سمت درست ہے جبکہ پی ڈی ایم والوں کی نیت میں بھی کھوٹ ہے اور سیاست میں بھی، پی ڈی ایم کی حکومت نے چند ماہ کے اندر معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔پی ڈی ایم کے لوگوں نے اپنی کھوٹی سیاست کی خاطر ملک کو داؤ پر لگایا ہوا ہے، یہ اپنی نام نہاد سیاست بچانے کے لیے ملک سے کھلواڑ کر رہے ہیں، پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، عمران خان نے ہمیشہ قومی مفادات کو مقدم رکھ کر فیصلے کیے ہیں۔پنجاب کی صورتحال کیا ہوگی اور کس کی حکمت عملی کامیاب ہوگی آنے والے وقت میں پتہ چل جائے گا۔


نوٹ ـ: یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری  نہیں ہے 

 محمد نویداسلم سینئرصحافی ہیں ،روزنامہ خبریں،نیا اخبار،صحافت ،دوپہر، روزنامہ وقت (جنگ گروپ ) کے ساتھ وابستہ رہے۔ نوائے درویش سمیت مختلف ویب سائیٹس کے لئے بلاگنگ کررہے ہیں،حالات حاضرہ ،شوبز،سپورٹس سمیت دیگر امور پرگہری نظر رکھتے ہیں۔




 

Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts