وائرس۔۔۔جنہوں نے تباہی مچائی
٭....وائرس طفیلی صفت کی وجہ سے انسانوں اورجانوروں کے ساتھ بیکٹیریامیں بھی کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں، ان میں نزلہ زکام، پولیو، فلو، ایڈز ، برڈ فلو، کورونا وائرس وغیرہ شامل ہیں
تحریر وتحقیق:مرزا جنید اسلم بیگ
وائرس کی تعریف پر غور کیاجائے تووائرس ایک زیر خوردبینی مجبر طفیلی ذرہ ہے، مجبر کے معنی لازمی کے ہیں یعنی وائرس کو زندگی برقرار رکھنے کے لیے کسی خلیہ میں طفیلی کے طور رہنا لازمی ہے۔ وائرس حیاتی اجسام میں عدویئت (انفیکشن) پیدا کرتا ہے۔ وائرس کا لفظ دراصل لاطینی اور اس سے قبل یونانی سے آیا ہے جس کا مفہوم زہر ہے۔ وائرس آزاد زندگی قائم نہیں رکھ سکتے اور یہ صرف کسی دوسرے جاندارخلیہ کا ڈی این اے یا آراین اے استعمال کرکے ہی اپنی تکرار (رپلیکیشن) کرسکتے ہیں، اسی لیے انکو مجبر درون خلیاتی طفیلیات کہا جاتا ہے۔وائرسوں کی خلیاتی ساخت ایسی نہیں ہے کہ وہ پروٹین سنتھیسس کے ذریعے اپنی تولید کر سکیں یا اپنی کاپی بنا سکیں اپنی تعداد میں اضافہ کرسکیں۔ وائرس، بِدائی المرکز (prokaryotic) اور حقیقی المرکز (eukaryotic) دونوں طرح کے خلیات میں انفیکشن (بیماری) پیدا کرتے ہیں۔ وائرس طفیلی صفت کی وجہ سے انسانوں اورجانوروں کے ساتھ بیکٹیریامیں بھی کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ ان میں نزلہ زکام، پولیو، فلو، ایڈز ، برڈ فلو، کورونا وائرس وغیرہ شامل ہیں۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ کچھ وائرسس ایسے ہیںجنہوںنے دنیا بھر میں تباہی مچاہی اور سائنس دانوں کو ان کا حل نکالنے کے لئے سر جوڑنے پر مجبور کیا۔ اس وقت دنیا اگرچہ کرونا وائرس کی لپیٹ میںہے لیکن کورونا سے قبل بھی بہت سے ایسے وائرسز ہیں جنہوںنے تباہی مچائی۔ ان کا تذکرہ ذیل میںکیا جائے گا۔
کورونا وائرس:
کورونا وائرس نے دنیا بھر میںتباہی مچائی اس کے توڑ کے لئے تجربات جاری ہیں۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جس نے چینی شہر ووہان میں تباہی مچائی اور بہت سے افراد اب تک لقمہ اجل بنے۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ کورونا سے سب لوگ خوفزدہ ہیںاور اس کے لئے قرنطینہ کاکہا گیا یعنی لوگ خود کوزیادہ سے زیادہ تنہا اور الگ رکھیں اور سوشل ڈسٹنس کا لفظ استعمال کیاگیا۔
نیفا وائرس :
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق نیفا وائرس ایک حیوان آوردہ بیماری ہے، یعنی یہ چھوت کا ایک ایسا جان لیوا وبائی مرض ہے جو جانوروں سے انسانوں کو بہ آسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ چمگادڑ اس وائرس کے فطری میزبان سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی یہ وائرس چمگاڈر کے لعاب، پیشاب اور فضلے سے خارج ہوتا ہے۔ سب سے پہلے نیفا وائرس ستمبر 1998 میں ملائشیا میں ایک وبائی مرض کی صورت میں پھیلا تھا۔ نیفا وائرس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے متاثرہ شخص میں ابتدا میں کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے اس کی تشخیص مشکل ہوتی ہے اور جب اس وائرس کا انسانی جسم میں پتا چلتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بخار، سردرد، غنودگی، پٹھوں کا درد، ذہنی اختلال اور ذہنی الجھن اس کی ابتدائی علامات ہیں اور دماغی سوزش جب کہ دماغی سوزش کا ہونا نیفا وائرس کی ایک جان لیوا علامت ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 1998 کے بعد سے تقریباً ہر سال بنگلہ دیش میں یہ وبا کہیں نہ کہیں ضرور پھوٹ پڑتی ہے۔ نیفا وائرس کے متعلق یہ سازشی نظریہ پایا جاتاہے کہ اِس وائرس کو ملٹی نیشنل ادویات ساز کمپنیوں نے تخلیق کیا تھا تاکہ وہ اِس وائرس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کو مختلف امراض میں مبتلا کر کے اپنی ادویات کی فروخت میں غیرمعمولی اضافہ کرسکیں۔
ایبولا :
ایبولا بھی تیزی سے پھیلنے والا ایک وبائی مرض ہے۔ 2013 سے 2016 کے درمیان اِس وائرس نے براعظم افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایبولا وائرس کا شکار ہونے والی آبادی کی اکثریت کا تعلق غریب افریقی ممالک سرالیون، لائبیریا، اور گنی سے تھا۔ ایبولا وائرس انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا وائرس ہے جس میں مبتلا مریضوں میں دو سے تین ہفتے کے اندر بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جب کہ اِس مرض سے جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایبولا وائرس کے بارے میں دنیا بھر میں ایک سے زیادہ سازشی نظریے زبان زدعام ہیں۔
ڈینگی:
ڈینگی بخارنے بھی وباکی صورت اخیار کی تھی اور تباہی مچائی تھی ۔ دراصل ڈینگی ایک وائرس ہے جو مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس سب سے پہلے دماغ کی جھلی کو متاثر کرتا ہے جس کے بعد آہستہ آہستہ انسانی اعضا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ اِس کیفیت کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو متاثرہ مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ سائنس دانوں نے ڈینگی وائرس پھیلانے والے مچھر کے انسداد و نسل کشی کے لیے ”وولبا کا“ نامی ایک جرثومہ سے مدد حاصل کی۔ ڈینگی وائرس پھیلانے والے مچھر کی نسل کشی کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور حالیہ برسوں میں اِس جرثومے کی مدد سے دنیا بھر میں انسداد ِ ڈینگی میں خاطر خواہ مدد حاصل ہوئی۔2008 میں جب پاکستان میں ڈینگی بخار کا مرض ایک وبائی صورت اختیار کرگیا تو ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر ڈینگی بخار سے متعلق ایک سازشی نظریہ بہت دیر تک گردش کرتا رہا۔
ایڈز :
ایڈز بلاشبہ جدید دور کا ایک خطرناک مرض ہے،ایڈز کا مرض ایک وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے، جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کردیتا ہے، یعنی ایڈز کے متاثرہ مریض کے جسم میں کوئی بھی بیماری داخل ہوتی ہے تو وہ فوراً ہی مہلک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس قاتل جراثیم کو ایچ آئی وی یا ایڈز کہتے ہیں اور یہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہلاتا ہے۔ ایڈز سے متعلق بھی دنیا بھر میں کئی سازشی نظریات پائے جاتے ہیں۔جنوبی افریقہ میں 1999 سے لے کر 2008 تک ایڈز بیماری کے وجود کوہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ جنوبی افریقہ کے صدر تھابو مبیقو نے اپنے ایک سرکاری بیان میں ایڈز کو مغربی ممالک کے افواہ قرار دیتے ہوئے اپنے وزیرصحت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایڈز کے مغربی طریقہ علاج کو یکسر رد کرتے ہوئے اِس مرض سے شفایابی کے لیے قدرتی طریقہ علاج جیسے آلو اور چقندر کا استعمال کریں۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کا یہ بھی ماننا اورکہنا ہے کہ وائرس کوئی بھی ہو یہ بائیولوجیکل وار ہے اور اس کامقصد تباہی ہے لیکن اس سے ڈرنے کی بجائے ہمت سے مقابلہ کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment