اب ادھر کاحال سنیے!
نقطہ نظر........عثمان امجد بھٹی
کورونا کی تباہ کاریاں بڑھیں ہیں تو میرے گھر کے دروازے کے اندر موجود پانی والی ٹونٹی کے ساتھ میری بیوی نے صابن رکھ دیاہے اور ملازمین کو سخت ہدایات جاری کر دی ہیں کہ کوئی بنا ہاتھ دھوئے گھر میں داخل نہیں ہوگا۔ اور گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے تمام اہلِ خانہ کے ہاتھ ذاتی نگرانی میں دھلانے لگیں ہیں۔ ان کا گمان تھا کہ ملازمین بھی انکے ایسے ہی تابع فرمان ہیں جیسا کہ ہم ! کچھ دن اور گزرے ، حالات کچھ اورسنگین ہوئے تو اس نے مارشل لاء لگا دیا اور باقاعدہ سب کو اکٹھا کر کے کورونا کی مذموم حرکتوں پر روشنی ڈالی اور ان سے بچنے کی تدابیر کا علم دیا۔
تقریر کا باقعدہ آغاز “میرے ہم وطنو“ اور اختتام “اللہ آپکا حامی و ناصر ہو “ جیسے تاریخی اور “تراہ کڈ دینے “ والے جملوں سے کیا۔ اور واقعی ہمارا تراہ نکل گیا کہ ان جملوں میں ملفوف تقریر سننے والی قوم کا انجام “تمہارا اللہ ہی حافظ “والے محاورے سا ہوتا رہا ہے !
اور اب جناب کیا ہوا کہ ایک مددگار خاتون جو ابھی ہماری بیگم کے رعب میں اس طرح سے نہ آئی تھی جیسے ہم آ ہو ہیں ، بنا ہاتھ دھوئے گھر میں داخل ہو گئی۔ ہماری بیگم کی “ آئی ایس آئی“ بہت مستعد ہے، اسے فوراً خبر ہوگئی۔ سب مددگاروں کو اکٹھا کیا اور حکم جاری ہوا کہ اگلے دس روز کے لیے سب کی چھٹی۔ مالی اور گاڑی صاف کرنے والے کو یہ احکامات فون پر وصول کروائے گئے اور بیگم صاحبہ نے ماسک چڑھایا اور فون پر خود یہ احکامات پڑھ کر سنائے۔
مارشل لاءایڈمنسٹریٹر یعنی بیگم صاحبہ کا فرمان ہے کہ وائرس فون کے ذریعے منتقل ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ملازموں کو بے دخل کرنے کے بعد گھر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کے دروازوں کے ہینڈلوں کو ، گیٹ کے ان حصوں کو جہاں ہاتھ چھوتے رہے تھے ، ڈیٹول کے محلول سے دھویا۔ الماریوں کے ہینڈل ، کھڑکیوں کے پردے ، صوفوں کے کور ، وائیپر کا ہینڈل ، صابن دانی ، چولہوں کی نابیں ، دو بچے اور میاں ( یعنی خاکسار ) کو دھو ڈالا!
داخلی راستے پر ایک نشانچی کھڑا کر دیا ہے اور گھسنے کی کوشش کرنے والے کو گولی کا حکم ہے اور نوٹس بیرونی دیوار پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ ہر ایک گھنٹے بعد گھر میں موجود محصورین کے ہاتھ سنگینوں کے ساتھ میں دھلائے جا رہے ہیں۔” خاتونِ مومن ، خاتونِ حق ہونے کے باعث نعمت خانے میں اشیاء کا زیادہ سٹاک نہیں کیا گیا۔ گھر میں تیز تیز گھوم رہی ہیں اور ہر حرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئی ہیں۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا ہر وقت آن ہے۔ جس چینل پر کم خوف والی خبریں آ رہی ہوں اسے فوراً بدل دیتی ہیں۔ کل نارمل رہنے کی تلقین کرنے والی ایک ڈاکٹر دوست کو ان فرینڈ کر دیا۔ ڈاکٹر فاطمہ انکی پسندیدہ دوست بنتی جا رہی ہیں کیونکہ وہ ایسی ایسی احتیاطی تدابیر بتاتی ہیں کہ “موتو قبل انت موتو” کے فلسفے کی حقانیت اور افادیت مسلم ہوتی جا رہی ہے۔ گھر میں ایک عدد بلی بھی ہے جسکا نام منّو ہے۔ اسی بھی ہر گھنٹے بعد بغل میں دبائے غسل خانے میں جا کر اسکے چاروں پنجے نہایت احتیاط سے دھوتی ہیں۔ اسکے مونہہ پر ماسک چڑھانے کی کوشش بھی کی تھی جو اس نا سمجھ نے ناکام بنا دی۔ اب منّو مذید سنیٹائزیشن سے بچنے کے لیے ایک بیڈ کے نیچے جا چھپا ہے اور موتو قبل انت موتو کی اداکاری کر رہا ہے۔
گھر کے اندر بیگم کورونا کی تمام تر خوفناکیوں کو میگنی فائی کر کے ہر ایک تک پہچانے اور محصورین ( اسکے دو بیٹے اور ایک خادم یعنی میں ) کے ہر ایک گھنٹہ بعد ہاتھ دھلانے ، گرم پانی کے غرارے کروانے اور یہاں تک کہ نہلوانے ہر مصر ہیں۔
گھر کے خارجی دروازے پر، باہر نکلنے والے کے لیے گولا داغنے کا حکم لیے توپچی بیٹھا ہے اور بیڈ کی چھت اتنی نیچی ہے کہ ہم منّو کی طرح پناہ گزین نہیں ہو سکتے۔ تمام راستے مسدود ہیں۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن !!
نوٹ: یہ بلاگر، کالم نگار کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment