شالامار باغ
فیضان نقوی۔۔۔لاہور کا کھوجی
شالامار باغ لاہور مغلیہ طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔جس میں خوبصورت چوبترے راستے پانی کی نہریں آبشاریں اور فوارے شامل ہیں. یونیسکو کی بین الاقوامی ثقافتی ور کمیٹی نے اس باغ کی خوبصورتی اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو 30 اگست 1981 کو دنیا کے محفوظ عجائبات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے تا کہ اس کی صحیح معنوں میں نگہداشت ہو سکے۔
اس کی تعمیر شہنشاہ شاہجہاں کے حکم سے 1641 عیسوی میں شروع کی گئی اور یہ 1642 عیسوی میں مکمل ہوا۔باغ کی تعمیر شاہجہاں کے ایک امیر اللہ خان کی نگرانی میں علی مردان اور ملا وا ملک تولی کے تعاون سے ہوئی۔
شالامار باغ کے چاروں اطراف بلند حصاری دیوار ہے۔یہ شمالاً جنوباً تین تختوں پر بنایا گیا ہے. اس کا بالائی تختہ "مزح بخش" درمیانی تختہ "فیض بخش" اور زیریں تختہ "حیات بخش" کے نام سے موسوم ہے۔ باغ کا رقبہ شمالاً جنوباً 658 میٹر طول اور شرقاً غرباً 258 میٹر عرض پر محیط ہے. اس کے بالائی تختہ میں 105 فوارے نصب ہیں جبکہ درمیانی تختہ میں 152 فوارے اور زیریں تختہ 153 فوارے نصب ہیں. اس طرح ان فواروں کی کل تعداد 410 بنتی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں پر پانی کے بہاو ¿ کے لئے پانچ تختے ہیں جس میں سنگ مر مر کا عظیم تخت اور ساون بھادوں کی بارودری بھی ہے۔ شالامار باغ مغلیہ باغات کی تمام تر اہم خصوصیات کا مرقع ہے جس میں بلند راستے اور پانی کے بہاو ¿ کی نہریں وغیرہ شامل ہیں۔باغ کو سیراب کرنے کے لیے 100 میل لمبی نہر دور بھارت میں وادھو پور کے مقام سے نکالی گئی جسے "شاہ نہر" اور بعد ازاں "ہنسی نہر" کا نام دیا گیا۔ باغ میں موسم سرما اور گرما کے پھلدار درخت جن میں آم، چیری، خوبانی، آلوچہ، جامن، سیب، بادام، کھٹے میٹھے نارنگیاں اور دیگر پھلدار اور خوشبودار پودے بکثرت لگائے گئے۔
باغ میں متعدد عظیم عمارات بھی ہیں۔ ان متاثر کن عمارات میں بارہ دریاں، دیوان خاص و عام ، خواب گاہ، شاہی حمام، دروازے اور برجیاں شامل ہیں۔خاص کر دیوان خاص و عام، آرام گاہ، بیگم صاحبہ کی خواب گاہ، ساون بھادوں کی بارہ دری اور نقار خانہ کی عمارات شامل ہیں۔ ان عمارات کے کونوں میں برج اس کے تاریخی حسن کو دوبالا کرتے ہیں. یہ باغ شاہی اور حکومتی اہلکاروں کی آماجگاہ رہا ہے موجودہ دور میں باغ کے تحفظ و بحالی کا کام محکمہ آثارِ قدیمہ حکومت پنجاب سر انجام دے رہا ہے۔ اس باغ کو اصل حالت میں محفوظ رکھنے کے لیے محکمہ ہذا نے قابل قدر کام کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment