زندگی ——کیسی ہے پہیلی
عثمان امجد
زندگی ایک پہیلی ہے جو شاید کبھی کوئی بوجھ پایا ہو ...
کبھی ایک دَم سے تھم جاتی ہے اور کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی ...
کبھی اتنے چھوٹے دائرے میں آ جاتی ہے کہ صدیوں کا بچھڑا پلک جھپکے میں آ ملتا ہے اور کبھی پلک جھپکے کا بچھڑا صدیوں نہیں ملتا....
کبھی سمندروں پار کا پاس محسوس ہوتا ہے اور کبھی پاس کا سمندروں پار ...
کبھی دل کے اندر رہنے والے دور جا بستے ہیں اور کبھی دور والے دل میں آ بسیرا کرتے ہیں....
کبھی نفرتیں محبتوں میں بھی بدلتی ہوں گی لیکن محبتیں نفرتوں میں بدل جاتی ہیں....
جو ر±ت پیاس بجھاتی ہے وہی ر±ت پیاسا مار بھی دیتی ہے۔ دشمن تو مارتا ہی ہے کبھی دوست کا وار بھی بہت گہرا ہوتاہے ِ۔
جومحبت ر±وح افزا ہے وہی محبت ر±وح فرسا بھی ہے۔
جسے پانے کی جستجو میں ہم رل جاتے ہیں، وہی حاصل ہمیں ر±ول بھی دیتاہے یہ
زندگی ایک پہیلی ہے جو شاید کبھی کوئی بوجھ پایا ہو۔
کوہِ طور کی آگ دکھائی دیتی ہے مگر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔
خالق کی سرگوشی تو کانوں میں رَس گھولتی ہے، مگر مخلوق کی چیخیں سماعتوں کے دَر کھولنے میں ناکام رہتی ہیں....
دوزخ سے بچنے کے لئے جنت سے دور ہو جاتے ہیں.... اور جنت کی خواہش دوزخ کے قریب کر دیتی ہے....
جو دل میں ہے اسے باہر ڈھونڈتے ہیں اور جو باہر ہے وہ دل میں آ چھپتا ہے
جسے تقسیم کرتے میں وہ ضرب کھا جاتا ہے اور جسے ضرب دینے میں وہ منقسم ہو جاتا ہے....
جسے منصرم کرنے میں وہ بکھر جاتا اور جسے منتشر کرنے میں وہ مرتکز ہو جاتا ہے۔نظر میں اِک سوال ہے اور اسی سوال میں اِک نظر ہے۔ تقریر میں خاموشی ہے اور اسی خاموشی میں اِک تقریر ہے جہاں جو ہے وہیں پہ وہ نہیں ہے اور جہاں جو نہیں ہے وہیں پہ وہ ہے۔
زندگی ایک پہیلی جوشاید کبھی کوئی بوجھ پایا ہو
۔ کبھی ہنستے ہنستے آنسو ٹپک پڑتے ہیں اور کبھی روتے روتے ہنسی آجاتی ہے۔کبھی زمین پر پاو¿ں نہیں پڑتے اور کبھی زمین کے اندر سمانا پڑتا ہے۔ کبھی جینے کی خواہش مرنے نہیں دیتی اور کبھی مرنے کی آرزو زندگی کا رنگ لے اڑتی ہے۔ کبھی کچھ کہتے کہتے چپ ہو جاتے ہیں اور کبھی چپ رہتے رہتے کچھ بول پڑتے ہیں، کبھی رکتے رکتے چل پڑتے ہیں اور کبھی چلتے چلتے ر±ک جاتے ہیں۔ کہیں کوئی منزلوں کے تعاقب میں جان ہار جاتا ہے اور کہیں منزلیں کسی کا تعاقب کرتے نہیں تھکتیں۔ کوئی سب کچھ پا کے بھی محروم رہتا ہے اور کوئی محروم رہ کر بھی سب کچھ پا جاتا ہے۔ کوئی بھرے ہاتھوں خالی اور کوئی خالی ہاتھوں بھرا۔ کسی کی بلندیاں پستیوں کے سامنے ہیچ میں اور کسی کی پستیاں بلندیوں سے ارفع۔
ہاں زندگی ایک پہیلی ہے جو شاید کبھی کوئی بوجھ پایا ہو۔
جو بوجھ لیتا ہے معدوم ہوجاتا ہے ، جو رہ جاتا ہے ،بوجھ نہیں پاتا۔۔۔۔۔







No comments:
Post a Comment