”پہلے تولو پھر بولو“....
کالم نگار۔۔۔محمدنویداسلم
نوائے درویش
”پہلے تولو پھر بولو“....
چپ سائیںنے کہاکہ کسی گاو ¿ں میں دو بھائی رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے ہمسائے میں کسی بزرگ کی وفات ہو گئی۔ اب جہاں گاو ¿ں کے باقی لوگ تعزیت کے لیے گئے، وہی یہ دونوں بھی تعزیت کرنے پہنچ گئے۔باتوں باتوں میں چھوٹا بھائی مرحوم کے بچوں کے پاس گیا، فاتحہ خوانی کی، روایتی انداز میں ان کو تسلی دی اور اٹھتے اٹھتے دعائیہ کلمات کچھ یوں کہے کہ ”اللہ آپ کو آپ کے والد کا نعم البدل عطا کرے....“اتنا سننا تھا کہ وہ سب لوگ آگ بگولا ہو گئے مار مار کے ااس کا برا حشر کر دیا اور بولے ....ارے بھائی باپ کا بھی کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے، پہلے دیکھ تو لو کیا بول رہے ہو۔ا
اس کا بڑا بھائی جو کچھ دور بیٹھا ہوا تھا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ سارا ہنگامہ اس کے بھائی کی وجہ سے ہوا ہے تو وہ بھاگتا ہوا وہاں گیا،
اس نے جاتے ہی پہلے تو ان سب سے معذرت کی، پھر بھائی کی طرف رخ کر کے بولا ”شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے، بھلا باپ کی جگہ بھی کوئی لے سکتا ہے،اور پھر دوبارہ مرحوم کے بچوں کی طرف رخ کر کے بولا، یہ تو چھوٹا ہے، نادان ہے، اسے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے، آئندہ آپ کا کوئی بھی مرے گا صرف میں ہی آو ¿نگا۔۔۔“
چپ سائیں نے ازراہ تفنن کہا کہ نتھو اور پتھو تم دونوںکا ہی نہیں ہمارے سیاست دانوںکا بھی یہی حال ہے۔ جوش خطابت میں وہ بھول جاتے ہیںکہ کیا بولنا ہے اور کیانہیں۔انہوںنے کہاکہ ضعیم قادری، منظور وسان ،فریال تالپور یہ سب جوش خطابت میں ایسے الفاظ کہہ چکے ہیں کہ بعد میں ان کوخود ہی شرمسار ہونا پڑااور سوچنا پڑا کہ کیا کہا۔چپ سائیںنے کہاکہ قائم علی شاہ نے تو ایک بار یہ تک کہہ دیا کہ خون پھر خون ہے گرتا ہے تو تھم جاتا ہے....
نتھو اورپھتو ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی آج کل ”زبان کے پھسلنے“ کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ایران میں دیے گئے بیان پر ’زبان پھسلنے‘ کی بحث ابھی کسی جانب لگی نہیں تھی کہ عمران خان نے وانا میں جلسے سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ’بلاول بھٹو صاحبہ‘ کہہ کر مخاطب کر دیا۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”میں بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح کوئی کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا کہ مجھے والدہ نے جائیداد میں پارٹی دے دی ہے۔۔۔“
عمران خان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر فوراً ہی شدید تنقید شروع ہو گئی جس میں پہلے ’صاحبہ‘ اور پھر ’بلاول صاحبہ‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔
ماضی پر اگر نظر دوڑائیںتو عمران خان بے باک سیاست دان ہیں وہ جس طرح کرکٹ کے میدان میں فوری فیصلے کرتے تھے اور سختی سے پیش آتے تھے اسی طرح سیاست کے میدان میںبھی ہیں۔پاکستان سپر لیگ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘تک کہہ ڈالا جس پر دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی تھی۔
چپ سائیں نے کہاکہا صاحبوبولنا اور بات کرنا اچھی بات ہے لیکن یہ سلیقہ سیکھنے میں بہت وقت لگتا ہے کہ کب بولنا ہے؟ اور کیا بولنا ہے؟۔ لفظ تو زبان سے ادا ہونے کو بے تاب رہتے ہیں کہ ان الفاظ سے جملے بنائے جائیں یا انہیں برتا جائے۔ چپ سائیں نے کہاکہ
سیانے کہا کرتے ہیںکہ زبان ایک تالا ہے جب یہ تالا کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اندر کیا رکھا تھا۔ یاد رکھیں کہ بولتے ہوئے صرف الفاظ ہی ہمارا تعارف بنتے ہیں۔ اس لیے لفظوں کے عمدہ انتخاب سے ہم کسی کے دل میں اتر سکتے ہیں یا کسی کے دل سے اتر سکتے ہیں۔چپ سائیںنے کہاکہ سب سیاست دانوںکوجوش خطابت میںہوش نہیںکھونے چاہئیں اورالفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے ورنہ حریف تو نشتر زنی کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔







No comments:
Post a Comment