معین اختر:ہمہ جہت شخصیت کے مالک
کمپیئرنگ اوراداکاری سے
کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے فنکار کی 8ویں برسی پرخصوصی تحریر
مشہور سٹیج، ٹی وی ڈراموں اور پروگرامز میں”بکر ا قسطوں پر“ ،”بڈھا گھر پر ہے“،” روزی“،” ہاف پلیٹ“،” عید ٹرین“،” بندر روڈ سے کیماڑی“،” سچ مچ“،” فیملی 93“،” آنگن ٹیڑھا“ ،”سٹوڈیو ڈھائی“،”سٹوڈیو پونے تین“،” لوز ٹاک“ شامل ہےں
محمدنویداسلم
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کووےران کرگےا
اس شعر کی ہمہ گیر حقیقت سے انکار ممکن نہیں ۔اس جہان فانی مےںکچھ لوگ مرنے کے بعد اپنے کام کی وجہ سے امر ہوجاتے ہےں۔ایسی ہی کچھ یادیں ، کچھ باتیں راہ زندگی پر نقش چھوڑنے والی ان ہستیوں مےں اےک نام معےن اختر کاہے۔ معےن اختر وہ شخصےت تھے جو روتوںکوہنسانے کافن جانتے تھے۔ وہ جس محفل مےں بےٹھتے اپنا رنگ جمالےتے۔مشہور کامےڈےن چارلی چےپلن کامقولہ ہے کہ” زندگی کلوز اپ مےں ٹرےجےڈی اورلانگ شاٹ مےں کامےڈی ہے“........انہوںنے اےک اورمقام پرکہاتھا کہ” جس دن آپ قہقہہ نہ لگاسکےں وہ دن زندگی مےں نہےں گنا جانا چاہئے“.... حقےقت بھی ےہی ہے معےن اختر اپنی ذات مےں مکمل اداکار تھے ۔پاکستان کی کامیڈی کے کینوس پر چند ایسے رنگ بکھرے ہیں جن کے بغیر پاکستانی شوبز کامیڈی ادھوری ہے ۔مصنف لفظ تو لکھ ہی دیتا ہے مگر لکھے ہوئے لفظ کے تقاضے پورے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔معین اخترایک ایسا نام تھے جنہوں نے سٹینڈ اپ کامیڈی سے کیرئیر کا آغاز کیابعد ازاںکمپیئرنگ اوراداکاری مےں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
معےن اختر نے کامےڈی کوفرارےت کاوسےلہ نہےں بناےا بلکہ اہل ذوق کی تسکےن کاسامان کےا ۔انہوں نے روتوں کوہنساےا اورغم روز گار مےںالجھے ہوئے انسانوں کی تالےف قلب کی۔ ان کے منفرد انداز نے ان کوملک گےر شہرت دلائی اوربےک وقت چھوٹے بچوںسے لے کرعمررسےدہ افراد مےںمقبول بناےا۔ وہ انسان دوست فنکار تھے۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے جونےئرز سے بھی سےکھتے تھے۔ ان مےںعجزوانکساری انتہا کی تھی۔ان کی موت سے کامےڈی کااےک شائستہ باب ختم ہوگےا ہے۔
معےن اختر 24 دسمبر 1950ءکو پیدا ہوئے اور22اپرےل2011کوکراچی مےں ابدی نےند سوگئے۔ان کا شمار اعلی پائے کے ورسٹائل اداکاروں میں ہوتا تھا ۔ انہوں نے 45 سال پر محیط اپنے فنی کیریئر کے دوران کئی حوالوں سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کامیڈی کے ساتھ ساتھ میزبان، گلوکار اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے فن کی دنیا میں بھی متاثر کن کارکردگی دکھائی۔ انہوںنے پاکستان ٹیلی وےژن پر اپنے کام کا آغاز 6 ستمبر 1966 کو یوم دفاع کی تقریبات کے لئے کئے گئے پروگرام سے کیا۔روشنیوں کے شہر کراچی سے ان کوشہرت ملی ۔معےن اخترنے کئی ٹی وی ڈراموں، سٹیج شوز میں کام کرنے کے بعد انور مقصود اور بشری انصاری کے ساتھ ٹیم بنا کر کئی معیاری پروگرام پیش کئے۔انہوں نے کئی زبانوں میں مزاحیہ اداکاری کی ،جن میں انگریزی، سندھی، پنجابی، میمن، پشتو، گجراتی اور بنگالی کے علاوہ کئی دیگر زبانیں شامل ہیں، اردو میں ان کا کام ان کو بچوں، بڑوںاور ہر عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول بناتا ہے۔انہوں نے جو بھی کام کیا دل سے اورفن کی گہرائےوں مےں ڈوب کر کیا۔
معےن اختر کے مشہور سٹیج، ٹی وی ڈراموں اور پروگرامز میں سے کچھ کے نام یہ ہیں”بکر ا قسطوں پر“،” بڈھا گھر پر ہے“،” روزی“،” ہاف پلیٹ“،” عید ٹرین“،” بندر روڈ سے کیماڑی“،” سچ مچ“،” فیملی 93“،” آنگن ٹیڑھا“،”سٹوڈیو ڈھائی“،”سٹوڈیو پونے تین“،” لوز ٹاک“ وغیرہ۔”لوز ٹاک“کی ہر قسط میں معین اختر نے ایک الگ بہروپ اختیار کیا تھا۔ پی ٹی وی کے طوےل دورانےہ کے کھےل”روزی“ مےں مس روزی کے نسوانی کردار سے معےن اختر کی مقبولےت دوچند ہوگئی۔
لانگ پلے ”روزی“ کی کہانی ہالی وڈ کی فلم”Tootsie“ سے اخذ کی گئی تھی جس مےںہالی وڈ کے اداکار ڈسٹن ہوف مےن نے اداکا ری کے جوہر دکھائے تھے۔ ہالی وڈ اداکار ڈسٹن ہوف مےن جےسے نابغہ روزگاراداکارکے کردارمےں جان ڈالنا ےہ معےن اختر کا ہی خاصا تھا ۔
معےن اختر نے ڈرامے روزی مےں ہارون نامی لڑکے کاکردارکےا ،ےہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے لڑکی کاروپ دھارلےتا ہے۔ہارون ےہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھا اداکار ہے لےکن اسے سٹوڈےو کے اندر بھی نہےںجانے دےاجاتا۔اس کواچھوتا آئےڈےا آتا ہے وہ لڑکی کاروپ دھار کرسٹوڈےو مےں آتا ہے اوراسے ڈرامے مےںکام مل جاتا ہے۔ اس ڈرامے کی ہداےات وپےشکش سائرہ کاظمی کی تھی۔معےن اختر نے اس ڈرامے مےںجان ڈال دی اورےہ کرداران کی پہچان بن گےا۔اس مےں ان کے ساتھ فضےلہ قاضی بھی تھےں۔
اداکاری کا مطلب ہی روپ بدلنا ہے، یعنی آپ وہ نظر آئیں جو آپ حقیقت میں نہیں ہیں، چنانچہ ایک خوش و خرم زندگی گزارنے والا معقول اداکار کیمرے کے سامنے آکر کبھی تو ایک غمگین، پریشان اور مفلوک الحال مزدور بن جاتا ہے اور کبھی ایک ایسے کروڑ پتی سمگلر کا روپ دھار لیتا ہے جو دنیا کا امیر ترین آدمی بننے کے خواب دیکھ رہا ہو۔ اداکاری یقیناً اسی دھوپ چھاﺅں کا نام ہے لیکن بعض اوقات اداکار اپنی ذات سے بہت مختلف کردار اپنانے کا چیلنج قبول کر لیتے ہیں۔اگر کوئی جوان اداکار ایک اسّی سالہ بوڑھے کا کردار قبول کر لیتا ہے تو اُس میں فنِ اداکاری کے ساتھ ساتھ میک اپ آرٹسٹ کا فن بھی آزمائش کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے۔یہی صورتِ حال اُس وقت پیش آتی ہے جب کوئی عورت رُوپ بدل کر آدمی بننا چاہے یا کوئی لڑکا کسی لڑکی کا بھیس بدل لے۔ عورت کا آدمی بننا نسبتاً آسان ہے صرف داڑھی، مونچھ اور ٹوپی یا پگڑی سے اصلیت چھپا لی جاتی ہے البتہ جب کوئی لڑکا نِسوانی روپ اختیار کرتا ہے تو معاملہ خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔پاکستان میں منور ظریف بڑی کامیابی سے عورت کے روپ میں ڈھل جایا کرتے تھے۔ایک ناز نخرے والی عورت، جو عشوہ و غمزہ دِکھا کر کئی دِل پھینک مردوں کو پیچھے لگا لیتی تھی۔ تاہم جب معےن اختر کانام لےا جائے تو ان کے کردار روزی کوےاد نہ کےاجائے توےہ زےادتی ہوگی ۔ےہ اےک اےسا کردارتھاجس کوانہوںنے اپنی اداکاری سے امر کردےا۔ انہوںنے اس کردار مےں اس قدر ڈوب کراداکاری کی کہ آج بھی مےڈم روزی کوسب جانتے ہےں۔
انور مقصود کے لکھے ہوئے پلے”ہاف پلےٹ“ مےں انہوںنے اےک مفلوک الحال شاعر کی شاندار اداکاری کرتے ہوئے شائقےن سے ڈھےروں داد سمےٹی۔انور مقصوداورمعےن اختر کی جوڑی لوگوں مےںہردل عزےز رہی۔ معےن اختر اپنے منفرد انداز سے شائقےن پراس قدر سحر طاری کردےتے تھے کہ کوئی بھی اپنی جگہ سے اٹھنے کانام نہےںلےتاتھا۔ کسی بھی فنکار کی نقل کرنے کی صلاحےت ان مےںخداداد تھی۔شو بِز کی دنیا میں شہرت کی چوٹی پہ پہنچ جانا تو آسان ہے لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ شہرت و مقبولیت ایک ہر جائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس محبوبہ کو رام کر چکے تھے۔
ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی معین اختر کا فن سٹیج کی دنےا سے نکل کر لوگوں کے ڈرائنگ روم تک پھیل گیا اورمعےن اختر بہت جلدپاکستانی ناظرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔ ستر کی دہائی اُن کے بامِ عروج پر پہنچنے کا زمانہ ٹھہرا۔اردو معین کی اپنی زبان تھی لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فنکارانہ ضرویات کے تحت شناسائی پیدا کی۔نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرےئر کی ابتداءہی میں سیکھ لیا تھا۔
معین اختر نے بھارت جا کر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا او ر خوب داد سمےٹی۔انہوںنے مشرقِ وسطٰی میں کئی بار شوز منعقد کئے اور برصغےر کے سب سے بڑے ادا کار دلیپ کمار تک کو اپنا فین بنا لیا۔ معےن اختر نے ایک شو میں دلیپ کمار کے سٹیج پر آنے سے پہلے مائیکرو فون منہ کے قریب لا کر دلیپ کمار کی آواز میں ان کی ایک فلم کے مکالمے بولنے شروع کر دیئے جس سے حاضرین سمےت خود دلیپ کمار بھی ششد رہ گئے ۔
معےن اختر نے سٹےج اورٹی وی کے بعد فلم کارخ کےا لےکن فلم کامزاج بھی ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہوسکا ۔انہوںنے چند فلمےں”راز“،” سب کے باپ“، ”تابعدار“اور”مسٹر کے ٹو“ کرنے کے بعد فلمی صنعت سے کنارہ کشی اختےار کرلی۔
معےن اخترعام شائقین میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے مگر ناقدین نے ان کے بعض ڈراموں میں سنجیدہ کرداروں کو عالمی معیار کے حوالے سے اکثر و بیشتر سراہا ہے۔ انہوں نے اپنے کریکٹر ایکٹر کرداروں میں اداکاری کے جوہر دکھا کر لوگوں کی آنکھوں میں نمی بھر کر ثابت کیا کہ وہ حقیقی معنوں میں ور سٹائل اداکار تھے۔ ٹیلی وےژن شوز کے میزبان کی حیثیت سے ان کی اپنے موضوع پر گرفت،حملوں کی برجستہ ادائیگی اور حالات و واقعات کے مطابق مہمانوں سے جواب لینے کی فنکارانہ صلاحےت نے انہیں ضیاءمحی الدین جیسے لیجنڈ کو ان کی تعریف کرنے پر مجبور کردیا تھا۔انہوں نے اپنے ہر کردار کو پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں پیش کرکے اپنی منفرد اور شاندار حیثیت کو مرتے دم تک برقرار رکھا۔ ماضی میں پی ٹی وی کیلئے طویل دورانےے کی نشریات صرف اس لیے دیکھی گئیں کہ ان کی میزبانی کے فرائض معین اختر کر رہے تھے اور دیکھنے والوں کی دلچسپی مسلسل برقرار رہتی تھی۔ایوارڈز شوز،الیکشن کی طویل نشریات یا دیگر میراتھن نشریات کے دوران جب بھی انہوں نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے دیکھنے والوں نے اس دوران دوسرے تمام کام چھوڑ کر یہ نشریات دیکھیں۔ 80اور 90کی دہائی میں معین اختر،انور مقصود اور بشری انصاری کی ٹرائیکا نے اپنے کرداروں کے حوالے سے لازوال کام کیا،جس کو آج تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
معےن اختر کے جانے سے فن کی دنیا ایک ایسے فنکار سے محروم ہوگئی جس کی جگہ صرف معین اختر ہی پورا کرسکتے ہیں۔
انہوںنے اپنی فنی زندگی کے دوران ہزاروں روپ دھارے ، شاید ہی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا ہوجس پر انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر نہ دکھائے ہوں۔ پاکستان میں کامیڈی، سنجیدہ اداکاری، فلم، سٹیج، ریڈیو، گلوکاری، نقالی، میزبانی، لطیفہ گوئی، ماڈلنگ ، غرض فن کے ہر شعبے میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ان کوگانے کابہت شوق تھا وہ اپنا ےہ شوق پورا کرتے رہتے تھے۔ ”چھوڑ کے جانے والا“،”تےرا دل ےونہی تڑپے “،”چوٹ جگر پہ کھائی ہے “ ان کی البمز کے نام ہےں۔ان کے مشہور گانوںمےں
”رو رو کے دے رہا ہے دہائی“، ”تےرا دل بھی ےونہی تڑپے“،”درد ہی صرف دل کوملا“ اوردےگر شامل ہےں۔انہوں نے دنیا بھر میں پرفارمنس دی۔اردن اور گمیبیا کے صدور سمیت متعدد حکمرانوں کے مہمان خصوصی رہے۔ ملکی حکمرانوں نے نہ صرف ان کے کام کو سراہا بلکہ انہیں اپنے سامنے لائیو پرفارمنس کا بھی موقع دیا۔ وہ اکثر سرکاری تقریبات میں صدر اور وزیراعظم کے مہمان خصوصی شمار ہوتے رہے ۔انہیں بہترین کارکردگی پر تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیاتھا۔ معین اخترگذشتہ دہائی سے دل کے عارضہ میں مبتلا تھے انہوں نے سوگواروں میں بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا ہے۔
پی ٹی وی کے بلیک اینڈ وائیٹ زمانے سے لیکر آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک معین اختر ہر دور میں ٹی وی کے ساتھ رہے اور اگر آج اُن کے تمام کام کو زمانی ترتیب میں مُدّون کیا جائے تو خود پی ٹی وی کی ایک تاریخ تیار ہو جائے گی۔
معین اختر کا انتقال ملک کے اندر اور باہر ان کے چاہنے والوں کے لئے ایک بڑا سانحہ تھا۔ اپنے اس دکھ کا اظہار وہ ان کی فنی خدمات اور شخصیات کے محاسن کے ذکر سے کرتے رہے۔ وہ ایک بے مثال کامیڈین، اداکار، ٹیلی ویژن سٹار اور فن کار تھے اور ان کی فنی خدمات کو ایک عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔
معےن اختر ایک عظیم فنکار کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے دکھ درد میں کام آنے والے ایک عظیم انسان تھے۔وہ بہت نیک انسان سمجھے جاتے تھے جو ہر دکھی دل کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ ہر ممکن حد تک عملی مدد کو بھی تیار دکھائی دیتے تھے۔ ساتھی فنکار تو ان کی کمی محسوس کریں گے ہی، مگر وہ پرستار اور ہمدرد بھی انہیں برسوں یاد کریں گے جن کے دکھ سکھ میں وہ ہمیشہ شریک رہے۔













No comments:
Post a Comment