نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

افسوس ہم نہ ہوںگے



شاعر بے بدل، شکیل بدایونی


محمدنویداسلم


 یہ بھارت کا معروف ومعروف ترین شہر ممبئی ہے۔جہاں کا دن تودن راتیں بھی جاگتی ہیں۔ہلچل اور زندگی کی روانی ایسی کہ ہر کوئی بے پروا، اپنی دھن میں بھاگا چلا جاتا ہے۔ کہیں جائے سکون نہیں........ ہاں مگر باندرہ کا وہ قدیم قبرستان.... اہل ذوق سکون کے چند لمحات گزارنے باقاعدگی سے آتے ہیں کہ اس کی ہواﺅں میں ایسی غنائیت گھلی ہے جوکہیں اور میسر نہیں۔گورستان کے مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو محمد رفیع پکارے گا”یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوںگے ، افسوس ہم نہ ہوںگے“۔ آپ ٹھٹک کر رہ جائیںگے۔ دھیان مرکوز کرنے سے کوئی آہ سرد سے بلکتا محسوس ہوگا۔”سہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آﺅگے“۔ یہ کون ہے؟۔ منتظر کیوںہے اور کس کا ؟۔ آواز آئےگی”نگری نگری دوارے دوارے ڈھونڈوں رے سانوریا“....سٹپٹاجائیںگے آپ توکوئی تسلی دے گا” نہ میں بھگوان ہوں نہ میں شیطان ہوں“قدرے طمانیت سے آگے آئیںگے تویہ آواز کان پڑے گی”تجھے کھودیا ہم نے پانے کے بعد، تیری یاد آئی“ ۔”تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا“،رات ڈھلے تک یہ کویتا سنیںگے اور قبرستان سے واپس ہوتے ہوئے مدھر گیت”چودھویں کا چاند ہویا آفتاب ہو“ آپ ٹھنڈی آہ بھرکر قبرستان سے باہر نکل آئیںگے اور شہر خموشاں پر اچٹتی سے نگاہ ڈالیںگے تویہ آواز پیچھا کرے گی۔
”اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا“
آپ کی حیرانی بجا ہے لیکن مت ہوں کہ جہاں شکیل بدایونی ہوگا وہاں کی ہوائیں تو کیا نباتات وجمادات بھی اس کی نغمگی سے وجدانی کیفیت میں ہوںگی۔
فلمی شاعری کی بات کی جائے تواس مےںشکیل بدایونی کے بغےر فلمی شاعری کی تاریخ ادھوری ہے۔شکیل بدایونی 3اگست1916ءکو اُتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے تعلق تھا، والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش اِمام تھے ۔اس لئے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اُردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے ۔ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ءمیں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ جگر مراد آبادی کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور 100 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے جو بے پناہ مقبول ہوئے۔ جس میں”مغل ِاعظم“کے گیت سر فہرست ہیں۔ شاعری کے5 مجموعے غمہ فردوس ، صنم و حرم ، رعنائیاں ، رنگینیاں ، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔
 1936ءمیں جب شکیل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسی دور کے مشاعروں میں اپنے کلام کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ وہ ترقی پسند شعراءکے عروج کا دور تھا جو شکیل کو مجاز، جذبی ، جان نثار اختر اور مسعود اختر جمال جیسے شاعروں کا ساتھ ملا۔ 1942ءمیں جگر مرادآبادی نے ایک مشاعرے میں شکیل کی ملاقات موسیقار نوشاد سے کروائی اور یوں 1947 میں شکیل کے نغموں سے سجی کاردار کی فلم ”درد“منظر عام پر آئی تو فلم کے نغموں نے دھوم مچا دی ، پھر شکیل بدایونی اور نوشاد کی جوڑی نے فلمی موسیقی میں گویا ایک طوفان برپاکردےا۔
شکیل اور نوشاد کی جوڑی فلمی موسیقی میں بے مثال تھی۔ اس جوڑی نے ایسے گیت دئے جو آج تک کانوں میں رس گھولتے ہیں۔1942 میں جگر مرادآبادی نے ایک مشاعرے میں شکیل کی ملاقات نوشاد سے کرائی تھی۔شکیل اور نوشاد کے نغموں میں
گائے جا گیت ملن کے۔۔۔ (میلہ)
سہانی رات ڈھل چکی۔۔۔ (دلاری)
ہوئے ہم جن کے لئے برباد۔۔۔ (دیدار)
او دور کے مسافر۔۔۔ (اڑن کھٹولہ)
او دنیا کے رکھوالے۔۔۔ (بیجو باورا)
شامل ہیں۔ ان گانوں نے اپنے دور میں دھوم مچادی تھی۔
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
گر گر کے مصیبت میں سنبھلتے ہی رہیں گے
جل جائیں مگر آگ پہ چلتے ہی رہیں گے
غم جس نے دئے ہیں وہی غم دور کرے گا
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
مدر انڈیا1957میں ریلیز ہونے والی محبوب خان کی وہ فلم تھی جسے نرگس اور سنیل دت کی اداکاری، نوشاد کی موسیقی، محمد رفیع، لتا منگیشکر، منا ڈے اور شمشاد بیگم کی آواز اور شکیل بدایونی کی نغمہ نگاری نے اس وقت کی بہترین فلم کا خطاب عطا کیا۔” مدر انڈیا“ کے گیت آج بھی پسند کئے جاتے ہیں۔
فلم ہو”مغل اعظم‘نوشاد اور شکیل کی بات نہ کی جائے یہ ہونہیںسکتا۔
 جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
جب زندگی پیار کے نام لکھ دی
تو جینا کیا اور مرنا کیا
دیوانے کب ڈرتے ہیں
دنیا میں بدنامی سے
کسی نے سچ ہی کہا ہے روپ
کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
آواز ہے لتا کی ہے، موسیقی نوشاد جبکہ گیت شکیل کا ہے۔یہ گانا حسن کی دیوی مدھو بالا پر عکس بند ہوا تھا۔1960 کی کلاسیکل فلم” مغل اعظم “کے گانے کے لیے ڈائریکٹر کے آصف نے شیش محل کا سیٹ لگوایا تھا۔شیش محل کی ہو بہو نقل بنوانے میں تقریباً دو سال لگے اور فلمی تاریخ کے ماہرین کے مطابق 150 فٹ لمبے اور 80 فٹ وسیع اس محل پر باقی فلم کے بجٹ سے بھی زیادہ پیسہ خرچ ہوا۔شیش محل بنوانے کے لیے بیلجیئم سے شیشہ منگوایا گیا تھا۔
نوشاد اور شکیل کی اس رفاقت کا ایک دلچسپ واقعہ بڑا مشہور ہے ۔ شام ڈھلتے ہی نوشاد نے اپنے بنگلے کے ایک کمرے میں شکیل کو بند کرلیا تھا۔ نوشاد ہارمونیم پر نغمے کی دھن دہراتے اور شکیل اس دھن پر مختلف مکھڑے تحریر کرتے۔ سینکڑوں اشعار لکھے گئے ، لاتعداد مکھڑے ضبط تحریر میں لائے گئے لیکن دونوں ہی مطمئن نہ ہو سکے۔ کمرے کے ایک کونے میں کاغذ کے ٹکڑوں کا ڈھیر لگ چکا تھا ، پان کی ڈبیا خالی ہو چکی تھی ۔بالآخر شکیل نے پورا نغمہ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا اور جب نوشاد نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دوسرے دن کی صبح ہو چکی تھی اور اسی صبح نے ”مغل اعظم“کے یادگار گیت
 جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
 کا انکشاف کیا تھا۔پچاس سے ساٹھ کی دہائی تک دیگر نغمہ نگاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ گیت شکیل نے لکھے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب سے زیادہ فلمی گیت لکھنے والے نغمہ نگار شکیل بدایونی ہی رہے تھے ۔سب سے پہلا فلم فےئر ایوارڈ شکیل کو ”چودھویں کا چاند“کے ٹائٹل گیت پر 1961ءمیں ملا تھا۔
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو؟
جوبھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
چودھویں کا چاند ہو
زلفیں ہیں جیسے کاندھوں پہ بادل جھکے ہوئے
زلفیں ہیں جیسے کاندھوں پہ بادل جھکے ہوئے
آنکھیں ہیں جیسے مئے کے پیالے بھرے ہوئے
مستی ہے جس میں پیار کی تم وہ شراب ہو
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو؟
جوبھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
چودھویں کا چاند ہو
آواز ہو محمد رفیع گانا پکچرائز ہو گرو دت اور وحیدہ رحمان پر شاعری شکیل بدایونی کی ہو تو یہ شاہکار ہی تخلیق پاتا ہے۔
 1962ءمیں فلم ”گھرانہ“کے نغمے ”حسن والے تیرا جواب نہیں“اس میں روی کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز کا کمال تو تھا ہی لیکن اصل کمال فلمی نغمے میں شاعری کا تھا۔
حسن والے تیرا جواب نہیں
کوئی تجھ سا نہیں ہزاروں میں
تو ہے ایسی کلی جو گلشن میں
ساتھ اپنے بہار لائی ہو
تو ہے ایسی کرن جو رات ڈھلے
چاندنی میں نہا کے آئی ہو
یہ تیرا نور یہ تیرے جلوے
جس طرح چاند ہو ستاروں میں
حسن والے تیرا جواب نہیں
آج بھی کانوں میںرس گھولتاہے۔























 1963ءمیں بطور ہیٹ ٹرک فلم ”بیس سال بعد“کے نغمے”کہیں دیپ جلے کہیں دل“پر تیسرا فلم فےئر ایوارڈ حاصل کیا تھا فلمی گیتوں کے علاوہ بھی شکیل بدایونی کا کلام ادب دوستوں اور ادب نوازوں میں کافی مقبول ہوا ۔
شکیل بدایونی کے نغمے، نوشاد علی کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ نوشاد علی کے علاوہ شکیل نے روی اور ہیمنت کمار جیسے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔روی شرما کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز میں شکیل بدایونی کے گیت ”چودہویں کا چاند“ کوبیسٹ فلمی گیت کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
فلمساز وجے بھٹ نے جب فلم” بیجو باورا ”بنانے کا ارادہ کیا تو یہ طے تھا کہ فلم کی موسیقی نوشاد دیں گے۔ وجے بھٹ چاہتے تھے کہ فلم کے گیت پردیپ لکھیں۔ نوشاد نے کسی طرح وجے بھٹ کو راضی کیا کہ وہ ایک بار شکیل بدایونی کے لکھے گیت سن لیں۔ جب وجے بھٹ نے گیت سنے تو پھر فیصلہ شکیل بدایونی کے حق میں ہی ہونا تھا۔ اور اس کے بعد دنیا نے دیکھا کی فلم” بیجو باورا“ کے گانے کس طرح عوام و خواص میں مقبول ہوئے۔ مینا کماری اور بھرت بھوشن پہ فلمائی گئی فلم” بیجو باورا“میں ٹھمری اور دادرا جیسے راگ کا خوبصورت استعمال نوشاد نے بہت عمدگی سے کیا۔ان کا انتقال20 اپریل 1971ءکو ممبئی میں اور وہیں دفن ہوئے۔


شکیل کے معروف نغمے


 ٭سہانی رات ڈھل چکی
 ٭ یہ زندگی کے میلے
 ٭ہوئے ہم جن کے لیے برباد
 ٭تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا
 ٭بچپن کی محبت کو
 ٭آج میرے من میں سکھی
 ٭پیار کیا تو ڈرنا کیا
 ٭ آج پرانی راہوں سے
 ٭ چودھویں کا چاند ہو
 ٭ حسن والے ترا جواب نہیں
 ٭کہیں دیپ چلے کہیں دل
 ٭ بےقرار کر کے ہمیں یوں نہ جائیے
 ٭ بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے
 ٭ نصیب میں جس کے جو لکھا تھا
...................................

شکیل اور نوشاد کے نغمے

گائے جا گیت ملن کے۔۔۔ (میلہ)
سہانی رات ڈھل چکی۔۔۔ (دلاری)
ہوئے ہم جن کے لئے برباد۔۔۔ (دیدار)
او دور کے مسافر۔۔۔ (اڑن کھٹولہ)
او دنیا کے رکھوالے۔۔۔ (بیجو باورا)


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts