نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

صحافی، صحافت اور چوتھاستون


کالم نگار۔۔۔محمد نویداسلم
”نوائے درویش“

چپ سائیں بغل میں اخبار دابے خاموشی سے بوجھل قدموں کے ساتھ جارہے تھے۔ نتھو اورپھتو نے ان کو آواز دی۔ وہ گھبراکر متوجہ ہوئے۔نتھو اور پھتو نے پوچھا کہ چپ سائیں جی آج اخبارکی خبروں کے بارے میں نہیںبتائیں گے کیا؟انہوں نے اخباربغل سے نکالا اور کپکپاتے ہاتھوںسے دوبارہ بغل میںداب لیا....دونوںنے ان سے پوچھا کیا بات ہے آپ اس قدر گھبرائے ہوئے اور پریشان کیوں ہیں؟ چپ سائیںکی آنکھوںمیںچھپا غم اور آنسو صاف نظر آرہے تھے۔
نتھو اور پھتو ان کوبٹھایا ، پانی پلایااور سوالیہ نظروںسے دیکھنے لگے....کچھ دیر کے بعد دونوںنے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ....وہ.... دراصل میرا بیٹا ایک بڑے ادارے میںصحافی تھا....چپ سائیں پھر چپ کرکے....اس نے دن رات ایک کرکے اس ادارے میںاپنا نام اور پہچان بنایا لیکن اب ”سیٹھ صاحب“ نے خسارے کابتاکر اخبار بند کردیا ہے۔.... وہ اوراس کے سینکڑوں ساتھی بے روز گار ہوگئے ہیں۔....صحافت کے علاوہ اس کوکچھ اور کام بھی نہیںآتا اللہ جانے یہ زندگانی اب کیسے کٹے گی۔
نتھو اور پتھو بھی چپ سائیںکی باتیںسن کرافسردہ ہوگئے اور چپ سائیں کا لب ولہجہ ان کا ساتھ نہیں دے پارہا تھا۔حوصلہ کرکے بولے۔۔۔۔۔میرا بیٹا کہتا ہے کہ نجانے ان سب سیٹھوں کوکیا ہوگیا ہے ،خسارے کا راگ الاپ رہے ہیںاور ورکروںکواداروں سے نکال رہے ہیں۔۔۔۔بلاشبہ صحافت ریاست کاچوتھا ستون ہے لیکن اب یہ ستون موجودہ خود ساختہ مالی بحران کی وجہ سے بری طرح ہل چکا ہے۔صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دودھاری تلوار ہے اگر اس کے دستے کو مضبوطی سے تھام لیاجائے تو پھر زمام اقتدار باآسانی حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ یہ جس کو چاہے اوج ثریا پر براجمان کردے اور جس کی چاہے کردار کشی کرکے سماج کی نظروں میں گرادے۔ یہ سب کچھ کارپوریٹ گھرانوں کے زیرتحت ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔
چپ سائیںنے کہا کہ بیسیوں چینلز چل رہے ہیں لیکن میرا بیٹا بتاتا ہے کہ وہاں تنخواہیں نہیں مل رہیں اور اگر ملتی بھی ہیںتو دیر سے۔۔۔سماج کوآئنہ دکھانے والے اب خودتلح حقیقت اور کڑوی بات بنتے جارہے ہیں۔میڈیا خود میں آزاد گرداناجاتاہے اور اس کی آزادی کا مطلب ہے کہ وہ جمہوری اقدار کی حفاظت کرے، حکومت کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر سوال کرے لیکن موجودہ حالات تو صحافت کے لئے انتہائی خراب ہوتے جارہے ہیں۔ یہ قلم مزدور ایک طرف سیٹھوں کے ہاتھوں پس رہے ہیںاور دوسری طرف بے روزگاری کی چکی ان کوپس رہی ہے۔
ہمارے ملک میں ہڑتال اور مظاہرے معمول بن چکے ہیں، اور ہو بھی کیوں نہ عوام کو اس کی راہ دکھانے والے ان کے سیاسی رہبر و رہنما ہی تو ہیں جو حقوق حاصل کرنے کا اسی کو واحد ذریعہ بتاتے ہیں۔ صحافی بھی اپنے حق اور روزگار کےلئے پرامن احتجاج کررہے ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کیا اس سے واقعی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کے لئے آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔ آزاد صحافت شہریوں کو باخبر رکھتی ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کر سکیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے غریب عوام کو بول چال کی وہ آزادی نہیں دی جاتی جو اشرافیہ کے پاس ہے۔
صحافت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ،اس دنیا میں جب کبھی کسی شخص نے سوچا اور اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا خیال آیا اسی دن صحافت کی بنیاد پڑی۔انسان نے کبھی رنگوں اور روشنیوں کو کبھی تصاویر اور اوازوں کو کبھی الفاظ اور معنی کو اپنے خیالات اور ذریعہ بنایا۔ رسم الخط اور زبانیں وجود میں آئیں چھاپے خانے بنائے گئے، کاغذ بنااخبارات اور رسائل وجود میں آئے تو ذرائع ابلاغ نے اپنا سفر تیز تر کردیا تاکہ ہماری اس دنیا کے مسائل کو کم کیا جائے ۔ صحافت نے قلم سے کمپیوٹر تک کا سفر تیز ی سے طے کرلیا ہے اور اس نے بہت کچھ برادشت بھی کیا ہے لیکن اب تو شائد بات کمپیوٹر سے آگے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا تک جاپہنچی ہے ۔اخبارات کی بندش سے یہ بات عیاں ہے کہ اب ہر صحافی قلم مزدور نہیں بلکہ ڈیجیٹل مزدور ہوگا اور ڈیجیٹل ڈائری لکھی جائے گی لیکن غو ر طلب بات سوشل میڈیا پر قدغن کی باتیں ہیں....چپ سائیں انتہائی مغمورلہجے میں اپنا دکھ بیان کررہے تھے۔ ہم دونوں ان کی باتوںسے اندازہ لگاسکتے تھے کہ اگر اب بھی بروقت فیصلے نہ کئے گئے تو صحافت ، صحافی اور ریاست کایہ چوتھا ستون گرنے کے درپے ہے اور اس کوسنبھالنے کےلئے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے، اس بارے میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts