نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

محمدعلی....فلم انڈسٹری کے” بڑے بھیا



شہنشاہ جذبات کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا


محمد نوید اسلم

لالی وڈ کی تاریخ بہت پرانی ہے ، اس انڈسٹری میں بہت باکمال اداکار آئے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ان ہی اداکاروں میںسے ایک اداکار محمد علی ہیں.... وہی محمد علی جوسکرین پر جلوہ گر ہوئے تو انتہائی جذباتی ڈائیلاگز سے پرستاروں کے دلوں میںاتر گئے۔ ان کوفلم انڈسٹری شہنشاہ جذبات اور”بڑے بھیا“ کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ وہ انتہائی ورسٹائل اداکار تھے ۔انہوںنے جو کردار ادا کئے وہ شائقین کے دل میںاتر گئے۔ انہوںنے تین سو فلموںمیں کام کیا۔ وہ سی این این کے سروے کے مطابق ایشیا کے پچیس بہترین اداکاروں میں شامل تھے۔یہ سروے چار مارچ دوہزار دس میں کیاگیا تھا۔
محمد علی 19 اپریل 1931 میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی ارشاد علی تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔محمد علی کا خاندان بہت مذہبی تھا۔ ان کے ہاں انگریزی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ محمد علی کے والد سید مرشد علی عالم تھے۔1943 میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔ ان کی فیملی نے پہلے رام پور سے روہتک کا سفر کیا اوراس کے بعد ملتان کا رخ کیا۔ محمد علی نے 1949میں اسلامیہ سکول ملتان میں داخل کرا دیا۔ محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدر آباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدر آباد منتقل ہوگئے اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔
 محمد علی نے1956 میںحیدرآباد میں براڈ کاسڑکے طور پر کام کیا۔
ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں بطور ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔
محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔












1962 میں فلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیریئرکا آغاز کیا۔ فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے کیا۔ فلم زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو ضرور متوجہ کر لیا۔ اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963 میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم ”شرارت“سے ملی۔ انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زیادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن اور احمد رشدی تھے۔مہدی حسن نے ان کے لئے ایک سو پندرہ،احمد رشدی نے سو ،مسعود رانا نے چونتیس گانے گائے۔انہوںنے لاہور کا رخ کیااور 1964میں”خاندان“ میں کام کیا۔انہوںنے بطور ہیرو94 فلموںمیں کام کیا۔
’علی زیب“کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انہوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔محمد علی اور زیبا کی پہلی فلم ”چراغ جلتا رہا“ تھی۔ اس فلم کے پہلے ٹیک سے ہی محمد علی زیبا کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ ”تم ملے پیار ملا“کی شوٹنگ کے دوران 29ستمبر، 1966 کو محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شماردولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے علی زیب کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاو ¿س قائم کیا اور علی زیب کے بینر تلے کافی اچھی اور کامیاب فلمیں بنائیں۔
محمد علی نے کبھی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ان کے ذوالفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ 1974میں مسلم سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سلطان قابوس اور شاہ فیصل شہید نے علی زیب ہاو ¿س میں ہی قیام کیا تھا، اسی دوران فلسطین آزادی کے رہنما یاسر عرفات مرحوم نے بھی محمد علی سے ملنے کی خواہش کی تھی۔ اس طرح عالمی سطح پر محمد علی کو مقبولیت حاصل رہی۔ پاکستان میں ہر سربراہ حکومت سے ان کے اچھے اور قریبی تعلقات قائم رہے۔
انہوں نے ”علی زیب فاونڈیشن“تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج اور کفالت کے لیے ہسپتال قائم کیے، جہاں بلا معاوضہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تمام اخراجات وہ اپنے وسائل سے پورے کرتے تھے۔ ”علی زیب فاونڈیشن“کے علاوہ محمد علی کئی اداروں کے صدر اور فاونڈر ممبر رہے۔ ان تمام اموار میں ان کی پیاری بیوی بھی ان کے ہم رکاب رہیں۔ نجی سطح پر بھی علی زیب ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد معاونت کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کئی بیواوں اور یتیموں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ بہت سے غریبوں کے گھر کے چولہے محمد علی کے امدادی چیک سے جلتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ب ±رے وقت میں کام آتے تھے۔محمد علی نے248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو، 2 ڈبل ورژن انڈین، 1 بنگالی۔ 28 فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیا۔
1983 میں بھارت کے دورے پر گئے۔ اس دورے کے دوران اندرا گاندھی نے ان کے ہمراہی جنرل ضیا الحق سے خواہش ظاہر کی کہ محمد علی ہماری فلموں میں کام کریں، تاکہ فلموں کے ذریعے ہمارے تعلقات بہتر ہو سکیں، لہٰذا پاکستان آنے کے بعد ضیاالحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا، یوں انھوں نے اپنی بیوی زیبا کے ساتھ منوج کمار کی فلم ”کلرک“ میں کام کیا لیکن جب منوج کمار نے فلم دیکھی تو محمد علی کی اداکاری کے سامنے خود کو بونا محسوس کیا اس لیے اپنے تعصب کی بنا پرمحمد علی کا سارا اہم کام کاٹ کر ان کا کردار ثانوی کر دیا، جس کے باعث فلم بھی ناکام ہو گئی۔ وہ 19 مارچ، 2006 میں اچانک دل کا دررہ پڑنے پر دنیا سے کوچ کرگئے تھے ، ان کے کام اور خدما ت کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts