نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

"پرورش"، بچوں کی دنیا کو سمجھنے کا ڈرامائی آئینہ

 "پرورش"، بچوں کی دنیا کو سمجھنے کا ڈرامائی آئینہ



آج کل ہر طرف جنریشن زی یعنی جین زی کا  لفظ سننے کو مل رہا ہے۔ اس جنریشن کا کہنا ہےکہ ان کے والدین ان کے مسائل کو سمجھتے ہی نہیں اور یہ خود اپنے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ والدین نا صرف ان کو سمجھتے ہیں بلکہ ان کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں ۔ والدین اگرچہ جنریشن زی سے تعلق نہیں رکھتے لیکن وہ جنزیوں کا جانتے ہیں۔ 

اس موضوع پر نجی ٹی وی پر ڈرامہ " پرورش" بھی دکھایاگیاجس کو ناصرف جنزیوں نے سراہا بلکہ اس کی کہانی  ہر نسل کے لیے تھی لیکن اس پر کچھ تنقید بھی ہوئی، خیر اس پر بھی بات کرے ہیں ۔    ڈرامہ سیریل ’مائی ری‘ کی ہٹ جوڑی ثمر جعفری اور عینا آصف کی ڈرامہ سیریل ’پرورش‘ میں واپسی ہوئی، ڈرامے کی منفرد کہانی اور کاسٹ غیر معمولی تھی۔ ڈرامے میں مایا (عینا آصف) کا کردار بھی بہت مضبوط ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے  ۔پرورش کی ہدایت کاری کے فرائض میثم نقوی نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی کرن صدیقی نے لکھی ۔ڈرامے کی کاسٹ میں سویرا ندیم، نعمان اعجاز، سعد ضمیر، ریحام رفیق، شمیم ہلالی، بختاور مظہر، نورے ذیشان، حلیمہ علی، ثمن انصاری، ارشد محمود ودیگر شامل ہیں۔پرورش کہانی نوجوان بچوں کے مسائل اور والدین کو درپیش چیلنجز کے گرد گھومتی ہے۔

پاکستان میں بچوں خاص طور پر ٹین ایج لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ڈرامے بہت کم ہی بنتے ہیں جن میں ان کی زندگی کے معاملات، ان کی ذہنی کیفیت، ان کی جذباتی الجھنوں کو موضوع بنایا گیا ہو۔ اے آر وائی پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’پرورش‘ ان تمام موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔

جب والدین بچوں کے لیے ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جائیں، ہر وقت اپنی مرضی چلائیں، ان پر روک ٹوک لگاتے رہیں، انہیں کون سا سبجیکٹ منتخب کرنا چاہیے، کس شعبے کو بطور کریئر اپنانا چاہیے، ان فیصلوں کا اختیار بچوں کو دینے کے بجائے وہ اپنے فیصلے ان پر تھوپتے رہیں تو پھر کیا ہوتا ہے، اس ڈرامے میں ان تمام سوالوں کے جواب مل گئے۔

 ’پرورش‘ میں آپ کو تین نسلوں کا آپس میں ٹکراؤ نظر آئے گا جو مختلف نظریات اور مزاج رکھتی ہیں۔جہانگیر صدیقی (نعمان اعجاز) اپنی فیملی کے ساتھ بیرون ملک سے ہمیشہ کے لیے واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ گھر میں والدین کے علاوہ اس کے بھائی کی فیملی بھی رہتی ہے اور اب اس کے واپس آجانے کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم کے مسائل ہیں۔

جہانگیر کی اہلیہ ماہ نور (سویرا ندیم) اور ان کے دونوں بچے ولی اور آنیا ان کے پاکستان واپس شفٹ ہونے کے ان فیصلے سے خوش نہیں  ہیں۔ولی (ثمر جعفری)  ذہین  ہے اور موسیقی  میں رغبت ہے  لیکن جہانگیر کویہ پسند نہیں ہے وہ  میڈیکل میں بھیجنا چاہتا ہے۔ولی کو اپنے والد سے چُھپ کر گٹار بجاتے دکھایا گیا ہے اور اپنی گرل فرینڈ سے باتیں کرتے بھی۔جہانگیر صدیقی مغربی کلچر سے نالاں ہیں

جہانگیر اپنی بیٹی آنیہ کو لڑکیوں کے سکول بھیجنا چاہتے ہیں جبکہ بچوں کی ماں ماہ نور کو یہ پسند نہیں ہے ۔

دونوں بچے پاکستان آنے کے بعد ایک کلچر شاک میں ہیں ۔جہانگیر اور ماہ نور کے آپس کے تعلقات بھی زیادہ خوشگوار نہیں، ان کے درمیان بھی انڈرسٹینڈنگ کا فقدان ہے ۔

ڈرامے میں مایا (عینا آصف) ایک متوسط گھرانے سے ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے والد لڑکیوں کی جلد شادی کرانے کے حق میں ہیں،پرورش  ’جین زی‘ کے گرد  ہے لیکن اسے ہر عمر کا شخص دیکھ سکتا ہے  اور سیکھ سکتا ہے۔

 اس ڈرامے میں بچوں کی اُن کے پسند کے مطابق کریئر کا انتخاب کرنے اور والدین کی جانب سے اُن پر خاص شعبے کو اپنانے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ پر بھی بات کی گئی ہے۔

’نوجوان اپنے آئیڈیا کو لے کر بہت پُرجوش ہوتے ہیں جسے کہ ولی میوزک میں فیوچر بنانا چاہتا ہے اور مایا میڈیکل میں۔ تو یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُن کے خواب اُن کے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ  آج کل بچوں میں ڈسپلن کا فقدان اسی لیے ہے کیونکہ آپ نے مکمل طور پر انہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بچوں میں کانفیڈنس تو بہت زیادہ آ گیا ہے۔  ’پرورش‘ کا موضوع ہی ایسا تھا کہ جس کی رینج بچوں کے گرد رکھی گئی تھی اور خاص کر ’جین زی‘ کے حوالے سے بنے اس سکرپٹ میں نوجوانوں کے ذہنوں کو کریدنے کی ایک بھرپور کوشش تھی۔ 


یہ ڈرامہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بچے اکثر خاموش ہوتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، والدین بھی اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہوتے ہیں،۔


سوشل میڈیا بحث میں پسندیدگی اور اعتراضات کے درمیان صارفین ایک بات پر متفق ہیں کہ اس ڈرامے نے مکالمے کا راستہ کھولا ہے۔


شادی کے رشتے میں بھی، کمیونیکیشن گیپ فاصلہ بڑھائے جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی میرج کاؤنسلنگ کو عام کرنے میں حرج نہیں ہے۔


اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیلنگ یا زخم بھرنے کے لیے عمر کے آخری سال نہ چنے جائیں بلکہ یہ عمل شروع سے ہی پرورش کا حصہ بنایا جائے۔


نوٹ: یہ بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 


تعارف:حرااسلم بلاگر ہیں ،انہوں نے ماس کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ ان کو مختلف سماجی موضوعات پر لکھنے کا شوق ہے،وہ مختلف ویب سائیٹس پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔

Share:

1 comment:

Recent Posts