نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

ممتاز صاحب اور کارکنان آفتاب

 ممتاز صاحب  اور کارکنان آفتاب


جناب  ممتاز طاہر کا روزنامہ آفتاب دراصل کارکنوں کا اخبار تھاوہ اسے اپنا  دوسرا گھر سمجھتے  تھے، یہاں سے جانے  کے بعد انہیں یہاں دوبارہ آنے میں کسی دقت  اور  پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا تھا، ممتاز صاحب  ہمیشہ ایک شفیق  بزرگ کی طرح مسکراتے ہوئے  خیر مقدم کرتے  تھے،  ہم رفقا کارکو دوران ملاقات اس بات  کاکم ہی احساس  ہوتا تھا کہ ہم کسی چیف ایڈیٹر یا اخباری مالک سے مل کررہے 
ہیں،  ممتاز
صا حب
  ایک سیلف میڈ  انسان تھے جنہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کاآغاز اخبار کے نامہ نگار کے طو پر کیا اور پھر اپنی برسوں کی شبانہ  روز محنت سے وہ اس بلند مقام پر پہنچے، شاید اسی لئے  انہیں کارکنوں کی معاشی مشکلات کاخاصی حد تک اندازہ  تھا،  اور وہ اپنے طور پر انہیں کم کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے، ہمارے  ادارے کی ایک اور خوبی کا اعتراف سبھی کرتے ہیں کہ اس اخبار میں تنخواہ  بے شک کم ملتی  ہے، مگر مل جاتی ہے، جبکہ اس  کے معاصر ع بعض  بڑے اداروں  میں تنخواہ کا کچھ  پتہ  نہیں ہوتاتھا کہ کب  ملنی  ہے، حالانکہ ان کا بزنس افتاب کے مقابلے  میں کئی گنا زیادہ  ہوا کرتا تھا، اوریہ سب  اس کے  بانی کی انتھک کوششوں کے  باعث ممکن ہوتا  تھا۔ جب سیلری  کی تاریخ  قر یب آنیوالی  ہوتی تھی تو ممتاز طاہر پر اسکی ادائیگی کی دھن سوار ہوجاتی تھی،  اور وہ  اسے ممکن بنا کر ہی  سکھ کا سانس لیتے تھے، اس حوالے سے مصطفی  صادق کا وفاق اور جمیل اطہر کا  تجارت  بھی اخباری کارکنوں کے حلقے میں اچھی شہرت کے 
حامل اخبارات خیال کیے  جاتے  تھے۔
لاہور سے  ر وزنامہ آفتاب کاآغاز چودہ  اگست  1983  میں ہوا ان دنوں لکشمی  چوک  میں( جہاں واقع ایک  بلڈنگ  کے  پہلے دوسرے فلور  پر ہمارا دفتر تھا  )روز ایم آرڈی کے  مظاہرے ہوا کرتے تھے،  رائل پارک  سمیت  دیگر قریبی علاقوں سے  جموریت پسندوں   جھتے    بر آمد  ہوتے  اورچوک   میں پہنچ کر ضیائی آمریت  کے خلاف نعرے  بازی  کر تے ،او رکچھ دیر  یہ  پرامن احتجاج  جاری  رہتا اورپھر  سادہ  لباس  میں ملبوس اہل کار  انہیں قابو کرتے، چند گز دور کھڑی   سرکاری وین میں  سوار کراکے نامعلوم منزل کی جانب  روانہ  ہوجاتے ، ہم لوگ تقریبا   روزانہ  بالکونی میں کھڑے  ہو کر یہ منظر دیکھتے  جبکہ  ہمارے  فوٹو گرافرز  اس کی تصویریں بناتے، جو اگلے روز اخبار کے فرنٹ پیج  پر تفصیلی خبر کیسا تھ شائع ہوتی ۔
 آفتاب کی اس جرات مندانہ کوریج کی وجہ سے  وہ  اپوزیشن جماعتوں کا پسندیدہ اخبار بننے لگا ا،اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا  تاہم یہ  سلسلہ  بوجہ  زیادہ دیر نہ چل سکا  اور اخباری  انتظامیہ کو  اپنی پالیسی  تبدیل کرنے پر مجبور  ہونا پڑا،جب  ’’آفتاب‘‘  نے  لاہور سے اپنی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تو اسے  نامور پر وفیشنل صحافیوں کی ٹیم  میسر آگئی ، جبکہ عامل صحافیوں میں بھی فن کتابت کے استاد  خوش نویس اس کا حصہ بنے ۔ ایڈیٹر ظہور عالم شہید تھے تو چیف نیو ز ایڈیٹر  اعجاز رضوی ، نیوز ایڈیٹر شیخ  حسن برجیس سلیم بٹ سمیت ہمارے جیسے متعدد نوجوان بھی نیوز روم کی ٹیم کاحصہ  تھے۔ لیڈ لکھا کرتے  تھے سید دلاور زیدی جو  ممتاز خطاط  نفیس رقم کے چھوٹے بھائی تھے،  میگزین  اورایڈیشنز کی ذمہ داری شیدا کاشمیری ، ہجویری بھٹی ، شکیل بخاری، ور عائشہ اسلم کے سپرد تھی  بعد میں نائلہ صدف بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئی۔رپورٹنگ سائیڈ پر ہنز مند  لوگ  اس میں شامل تھے ، جس کے سربراہ  غالبا نواز چوہدری تھے،  پروین خان  بھی کچھ  عرصہ کے  لئے  آفتا ب سے واب بستہ  رہیں،ٹو گرافرز میں  اعجاز لاہوری ، عمر شریف ، خالد چوہدری اور رمیش چوہدری  نمایاں  تھے، ان  اساتذہ صحافت کی بدولت  آفتاب کو نوجوان  صحافیوں  کی تربیت گاہ درجہ  حاصل ہو گیا، یہاں سے اپنی عملی زندگی شروع کرنیوالے بہت  سے احباب نے  بڑا نام  کمایا  اور مستند صحافی کہلائے۔ ان دنوں  کے  بہت سے ساتھی  اور بھی تھے جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہے،،  ان  تمام سے پیشگی  معذرت، اخبار میں اس وقت حافظ نذر اور امجد حسین  پرانے ساتھیوں میں سے موجود ہیں،جب بھی جانا ہو انہیں دیکھ کر دلی مسرت ہوتی  ہے، اللہ پاک انہیں شاد و آباد ر کھے۔
اگر ذا تی حو الے  سے بات کروں  تویہ  ہے کہ سرکردہ  ادبی شخصیات کے انٹرویوز کا آ غاز میں  نے’’ آفتاب‘‘ سے کیا، پہلا ا نٹرویو سینئر شاعر،ادیب  اور صحا فی جناب یزدانی جالندھری کا تھا جو ادبی ایڈیشن میں نمایاں انداز میں شائع ہوا، تھا ، اس ضمن میں مجھے  جناب یزدا نی  کے صاحب زادے حامدیزدانی کا مکمل تعاون حاصل تھا۔روزنامہ آفتاب میں گزرا وقت  بلاشبہ ایک سنہری  دور تھا، یہاں کام کرنیکا ماحول دوستانہ تھا، اور یہ  اخبار کے مدیر اعلے ممتاز طاہر کی ملنسار طبیعت او ر شفقت کی وجہ سے  بنا تھا۔ گزشتہ دنوں جب  ان کے انتقال کی خبر سنی  تو دل میں درد کی  اک لہر سی اٹھتی ہوئی محسوس  ہوئی، ایسا  لگا  کہ جیسے  اک شجر سایہ  دار سے محروم ہوگئے  ہوں۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند  کرے اور لوا حقین کوصبر جمیل عطا کرے۔


نوٹ: یہ کالم نگار/بلاگر کی ذاتی رائے ہے اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


تعارف: کالم نگار/بلاگر طارق کامران سینئر جرنلسٹ ہیں۔و ہ اعلان،روزنامہ وفاق،مساوات،آفتاب،روزانہ اخبار،ہاٹن لائن،صباح الخیر،انصاف،پاکستان،اوصاف اور روزنامہ وقت سے وابستہ رہے، وہ لاہور پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور حلقہ ارباب ذوق کے رکن بھی ہیں۔


Share:

No comments:

Post a Comment

Recent Posts