ہاتھ دھونا بیماریوں کے خلاف حفاظتی دیوار
٭....وہ کام جس کے بعد ہاتھ ضرور دھوئیں اور وائرس دور بھگائیں
ہاتھ دھونا انتہائی ضروری ہوتا ہے، اس کا اندازہ بیماری یا وائرس کے پھیلنے کے بعد ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ہاتھ دھونا بیماریوں کے خلاف حفاظتی دیوار ہوتا ہے۔
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری سے بچنے کے لیے سماجی دوری کے ساتھ جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے، وہ ہاتھوں کو زیادہ دھونا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس مقصد کے لیے کم از کم 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھونے پر زور دیا جاتا ہے اور ایک یا 2 بار نہیں بلکہ متعدد بار۔
واضح رہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں، ٹوائلٹ جانے کے بعد تو ہاتھوں کو دھونا لازمی ہوتا ہے۔تاہم کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے بعد ہاتھوںکوضرور دھونا چاہئے۔
کرنسی نوٹوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور ایک نوٹ لاتعداد ہاتھوں سے گزرتا ہے، جس میں کھانسی یا چھینک کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات بھی ہوسکتے ہیں، جوکوروناکے پھیلاﺅ کا باعث بن رہے ہیں۔ ویسے کرنسی نوٹ سے کورونا وائرس کا خطرہ بہت زیادہ تو نہیں، مگر بہتر ہوگا کہ نوٹوں کو چھونے کے بعد ہاتھوں کو دھولیں۔
ہاتھوں کی صفائی کی اہمیت کا ذکر تو اوپر کیا جاچکا ہے مگر یہ بھی جان لیں کہ سیڑھی کی ریلنگ، دروازے کے ناب، ہینڈل اور اس طرح کے دیگر سہارے جہاں بھی موجود ہو، ان کو چھونے کے بعد فوری طور پر ہاتھوں کو دھونا مت بھولیں۔
ہسپتال ہی نہیں کسی ڈاکٹر کا چھوٹے کلینک میں بھی لاتعداد مریض آتے ہیں اور وہاں لاتعداد بیکٹیریا اور وائرسز موجود ہوسکتے ہیں، وہاں جانے کا اتفاق ہو تو واپسی پر فوری طور پر ہاتھ دھونا مت بھولیں۔
بیشتر افراد پالتو جانوروں کو چھونے کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں سمجھتے، مگر ایسا کرنا چاہیے، ایسا نہیں کہ ان سے کورونا وائرس آپ میں منتقل ہوسکتا ہے مگر دیگر جراثیموں کی بھی کمی نہیں ہوتی، تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔
شاید یقین کرنا مشکل ہو مگر سمارٹ فون سکرین پر کسی ٹوائلٹ سے بھی زیادہ جراثیم ہوسکتے ہیں (خصوصاً اگر صفائی کا خیال نہیں رکھا جائے تو)، اس کے علاوہ اے ٹی ایم اسکرین بھی بہت زیاہد جراثیم ہوسکتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ صابن اور پانی سے ہاتھ دھونا ان جراثیموں سے بچا سکتا ہے۔
کچن میں جراثیموں کی نشوونما کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے، جراثیم صرف کچے گوشت سے ہی نہیں آتے بلکہ اس کو دھونے، برتن اور کچن میں استعمال ہونے والے کپڑے اورسفنج میں بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچن کے سفنج میں 326 مختلف اقسام کے بیکٹریا موجود ہوسکتے ہیں، تو اس کو استعمال کرنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھونا مت بھولیں۔
ویسے تو اب پین کی جگہ سمارت فون یا کمپیوٹر لے رہے ہیں، مگر کئی بار ضرورت پڑنے پر کسی سے پین لے کر استعمال کیا جاتا ہے، جو غلط نہیں مگر اپنے کام کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھولیں۔ دفتر میں استعمال ہونے والے ایک پین میں کسی ٹوائلٹ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ جراثیم ہوسکتے ہیں۔ری فل ہوجانے والے ہینڈواش کی بوتلوں یا ڈسپنسر میں جراثیموں کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے، جب آپ لیکوئیڈ نکالنے کے لیے ڈھکن کے پمپ کو دباتے ہیں تو گندے ہاتھوں سے جراثیم اس پر منتقل ہوجاتے ہیں، تو ان کی صفائی کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے۔
ویسے تو اب لگ بھگ دنیا بھر میں ہی کسی نہ کسی حد تک فضائی سفر پر پابندیاں عائد ہوچکی ہیں، تاہم اس وبا کے بعد بھی جب کبھی ایئرپورٹ جانا ہو تو یہ ذہن نشین کرلیں کہ کسی بھی ایئرپورٹ میں روزانہ ہزاروں افراد کی آمدوفت ہوتی ہے، زیادہ لوگوں کا مطلب زیادہ جراثیم، جو بہت ساری چیزوں کو چھوتے ہوں گے۔ تو وہاں کچھ بھی چھوئیں تو کوشش کریں کہ ہاتھ دھونے تک منہ، ناک اور آنکھوں کو چھونے سے گریز کریں۔
عالمی ادارہ صحت نے ہاتھوں کی صفائی کے لیے چند نکات بیان کیے ہیں اور اسے بہتر طریقہ کار قرار دیا ہے۔اس طریقہ کار کے تحت سب سے پہلے اپنے ہاتھ گیلے کریں اور پھر صابن لگائیں، اپنی ہتھیلی کو اس وقت تک رگڑیں جب تک صابن کے بلبلے نہ بن جائیں۔اس کے بعد ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی پشت پر رگڑیں اور پھر یہی کام دوسری ہتھیلی سے کریں۔دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان اچھی طرح رگڑیں۔اپنی انگلیوں کی پشت کو رگڑیں اور اس سے پہلے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملالیں۔5ویں نکتے پر اپنے بائیں انگوٹھے سے دائیں ہتھیلی کو گھڑی کی سوئیوں جیسی حرکت کے ذریعے رگڑیں، اس کے بعد یہی کام بائیں ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے کریں۔اب یہی کام ہتھیلیوں کی پشت پر کریں یعنی انگوٹھے سے گھڑی کی سوئیوں جیسی حرکت کے ذریعے رگڑیں۔
No comments:
Post a Comment