نوائے درویش ایسی ویب سائیٹ ہے جو آپ کومنفرد خبروں،سپورٹس،شوبز ، سیاست،مضامین،کالمز ،انٹرویوز اور نوائے درویش کے مضامین سے باخبر رکھے گی۔ اس کے علاوہ کچھ منفرد تصاویر جوآپ کی توجہ اپنی طرف لے جائیںگی۔ اس لئے باخبر رہنے کے لئے لاگ آن کریں نوائے درویش

قرنطینہ


قرنطینہ

گمان۔۔۔۔آصف محمود ملک


قرنطینہ یا قیدِ طبّی یا جبری حراست ایسی پابندی ہوتی ہے جو وبائی بیماریوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔کسی وبائی مرض کے پھیلنے کی صورت میں متاثرہ علاقے سے آنے والے لوگوں کو مخصوص مدت کے لیے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے تاکہ ا ±ن میں مرض کے جراثیم ہوں تو سامنے آ جائیں۔
قرنطینہ اطالوی زبان کے لفظ quaranta giorni سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن ہے۔ریکارڈ کی گئی انسانی تاریخ میں 3 بار پلیگ ( بیکٹیریا ) نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ پہلی بار بازنطینی سلطنت کا صفایا 541- 542 AD میں کیا۔ پھر آیا یورپ کا بلیک ڈیتھ جو 1348 عیسوی سے شروع ہوا تو 4 سال میں 25 ملین افراد یعنی یورپ کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کو نگل گیا۔ اس دوران جو تجارتی جہاز شہر وینس کی بندرگاہ پر داخل ہوتے ان پر موجود تاجر اور عملے کے لیے لازم تھا کہ وہ چالیس دن جہاز میں ہی رکے رہیں۔ مقصد شہری آبادی سے دور رکھنا تھا تاکہ اس دوران جس کو پلیگ کا مرض ہے اس کی علامات ظاہر ہو جائیں اور اس کو صحت مندوں سے الگ کر لیا جائے کہ یہ واحد طریقہ تھا باقی انسانوں کو بچانے کا۔
کچھ تہذیبوں تک قرنطینہ کا تصور نہیں پہنچا تھا یا وہ اس پر عمل کرنے پر قادر نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر جب یورپین 1492 میں امریکا پہنچے جسے وہ امریکہ دریافت کرنا کہتے ہیں تو اپنے ساتھ کئی ایک وائرل بیماریاں لے گئے جن میں خسرہ، چیچک، چکن پاکس وغیرہ شامل ہیں۔
1855 میں تیسرا پلیگ چین اور برصغیر میں پھوٹا جس میں پہلی بار برطانوی فوج نے اس خطے میں باقاعدہ قرنطینہ، آئی سولیشن سنٹرنقل و حرکت پر پابندی اور جبری حفظان صحت قوانین نافذ کیے جس کا عوام سے سخت رد عمل آیا لیکن وہی اصول بعد میں برصغیر کے ماڈرن نظام صحت کی بنیاد بنے۔
قرنطینہ انسانی تہذیب جتنا ہی پرانا ہے اس کا تذکرہ صحیفوں میں بھی ہے۔ہمیں قرنطینہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ تمام eco system آپس میں ایک دوسرے سے مسلسل برسر پیکار ہے۔انسان کو افزائش نسل کے لیے موافق ماحول درکار ہے اسی طرح وائرس، بیکٹیریا کو زندہ رہنے اور افزائشِ نسل کے لیے حیات ( نباتات ، حیوان، انسان ) کی بطور میزبان ضرورت ہے۔ وائرس بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے وہ چاہے تو بیکٹیریا کو میزبان منتخب کرے چاہے انسان کو۔ ننھا سا structure ہے اور اس کا کام ہے انسانی خلیے کی دیوار توڑ کر اپنا جینیاتی مسالہ اندر ڈال کر اس کی کیمیائی مشنری استعمال کرکے مزید وائرس پیدا کرنا المختصر انسانی خلیے کو تباہ کرنا ہے۔
اگر وائرس یہ جنگ جیت جائے تو انسان مر جاتا ہے۔انسان جیت جائے تو وائرس پر قابو پا لیتا ہے۔اس سارے عمل میں وائرس اپنی علامات ظاہر کرنے میں وقت لیتا ہے۔COVID-19یعنی کرونا وائرس کی صورت میں یہ وقت 5 سے لے کر 14 دن تک ہے۔ اس کے لیے کم از کم 14 دن سارے شہر کو اپنے اپنے گھر کو ہی قرنطینہ بنا کر رہنا ضروری ہے۔
14 دن بعد صحت مند کو بیمار سے الگ کرکے علاج کے ذریعے بہتر کیا جاسکے گا۔ جسے بیماری سے لڑنا ہے اسے بھی طبی قرنطینہ میں رکھا جائے گا جہاں طبی امداد میسر ہو تاکہ وائرس سے اس جنگ میں باقی انسان اور خود مریض کا اپنا مدافعتی نظام اس کی مدد کرسکے۔انسانی تاریخ سے سیکھے گئے سبق میں یہ ہی واحد طریقہ ہے انسانی جسم میں داخل ہونے والے ان جانے وائرس سے لڑنے کا ہے۔ کرونا وائرس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس کی تباہی پلیگ یا تاریخ انسانی میں مختلف وائرس کے ہاتھوں آئی تباہی سے بہت کم ہوگی۔ تاہم اس سے ڈرنے کی بجائے احتیاط ضروری ہے لہذا خود کوگھروںتک ہی محدود کرنا ضروری ہے اور احتیاط بھی لازمی ہے۔

نوٹ: یہ بلاگر، کالم نگار کی ذاتی رائے ہے اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


Share:

2 comments:

  1. Naveed bhai, shukria, hum sub mil Kar hi wabai amraz ka muqabla Kar saktay han, Hazrat insan ko ALLAH PAK nay all say nawaza ha, hamyeen Iss k istimal say insanyeet ki falah k liye kam karty rahna chaye... May ALLAH bless humanity,Aameen

    ReplyDelete

Recent Posts